Maktaba Wahhabi

443 - 523
میں مشغول ہوجاتے ہیں، اور غل غپاڑہ ڈال کر دوسرے لوگوں کو ایذا پہنچاتے ہیں تو پھر یہ لوگ گویا نعمت الٰہی کی قدر افزائی نہیں کرتے، نہ اس کی نعمتوں کا شکریہ ہی ادا کرتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو دیکھا وہ عید کے روز غیر شرعی کھیل کود میں مشغول تھے تو انھوں نے کہا: (( إن کان ھؤلاء تقبل منھم صیامھم فما ھذا فعل الشاکرین، وإن کانوا لم یتقبل منھم صیامھم فما ھذا فعل الخائفین )) [1] ’’اگر ان کے روزے قبول ہوچکے ہوں تو یہ شکر کرنے والوں کا طرز عمل نہیں، اور اگر ان کے روزے قبول نہیں ہوئے تو یہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کا طریقہ کار نہیں۔‘‘ امام ابن قیم رحمہ اللہ کے فرمودات: اللہ تعالیٰ امام ابن قیم رحمہ اللہ پر اپنی رحمت کی بارش برسائے، وہ خوشی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس سامان کو اس کے خریدنے والوں اور اس کے قدر شناسوں کے پاس لے کر جائے گا، اور اگر راستے میں یہ ایسے لوگوں کے ہاتھ لگ جائے جو اس کے قدر شناس نہیں تو ایسے بھی ہوتا ہے کہ کچھ حاملین فقہ خود فقیہ نہیں ہوتے تو کچھ ایسے حاملین فقہ بھی ہوتے ہیں جو اپنے سے بڑے فقیہ کے پاس اسے پیش کردیتے ہیں۔[2] { مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرٰۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا} [الجمعۃ: ۵] ’’ان لوگوں کی مثال جن پر تورات کا بوجھ رکھا گیا، پھر انھوں نے اسے نہیں اٹھایا، گدھے کی مثال کی سی ہے جو کئی کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔‘‘ لہٰذا ایک مسلمان کو چاہیے کہ اسے اسراف کی حد تک خوشی منانے والا نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ان جیسے خوش ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ قطعاً پسند نہیں فرماتے، اس جیسی خوشی سرکشی اور تکبر کو جنم دیتی
Flag Counter