Maktaba Wahhabi

267 - 523
مغربی طرزِ تعلیم: اے ماہرینِ تعلیم و تربیت! منصف و عاقل اور اپنے دین و امت اور وطن سے محبت رکھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ بلادِ اسلامیہ میں مروج نظامِ تعلیم و تربیت کو نفع و نقصان کے معیار پر پرکھ کر دیکھیں کہ ان اسلامی ممالک کے مدارس و جامعات، سکول و کالجز اور انسٹی ٹیوٹس میں جو تعلیمی نظام مروج ہے اس نے کہاں تک ترقی کی ہے اور ان پر آنے والے خطیر اخراجات، زبردست محنتوں، اعلی طرز کی بلڈنگوں، نئے نئے مناہج اور طرح طرح کے وظائف کی ایجاد کے بالمقابل کیا حاصل ہوا ہے ؟ والدین کے جگر گوشوں اور نوجوان نسل کی فوجِ ظفر موج نے کیا پایا ہے ؟ زبردست فکری انتشار، تناقضِ آرا، دین کے بارے میں تشکیک، فرائض و واجبات میں لا پرواہی کے سوا انھیں کیا حاصل ہوا ہے؟ دینی اخلاق و آداب سے سر کشی، فطری عادات و أطوار سے بغاوت و بے اعتنائی اور ظاہر پرستی کے سوا ان کے ہاتھ کیا لگا؟ نوجوان نسلیں اور فوجیں اپنے حلقوں میں گلاسوں کے گلاس انڈھیلے چلے جا رہے ہیں مگر تشنہ لب ہیں، روحیں تاریک ہیں، بصارت و بصیرت سے تہی دست ہیں، اپنی ذات کا انکار کر رہے ہیں اور اغیار کا اعتراف کرتے اور ان کے تشخص پر ایمان رکھتے ہیں، امیدیں ان کے دلوں ہی میں دم توڑ دیتی ہیں، غیروں کی ایجادات پر پھولے نہیں سماتے، گندم اور جو کے آٹے اور روٹی کا مذاق اڑاتے ہیں، غیر ملکی زبان ( انگریزی ) چباتے رہتے ہیں اور چلنے پھرنے میں بھی یہ نوجوان أغیار کی تقلید کرتے ہیں ۔ اس مغربی انداز کی تربیت و تعلیم نے ان میں خود اعتمادی پیدا نہیں کی بلکہ انھیں تو معرفتِ نفس ( اپنے آپ کی پہچان ) سے بھی محروم رکھا ہے، انھیں ان کا مقام و مرتبہ بتایا ہے نہ ان کی ہمت کو جلا بخشی ہے، اور نہ ان میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کیا ہے، وہ تو میدانِ جنگ میں اترے بغیر ہی قتل ہو چکے ہیں، ان کے دل وجان میں صرف مادہ و دولت گردش کرتی رہتی ہے اور ظاہر داری و ظاہر پرستی ہی ان کے لیے سب کچھ ہے ۔ وقتِ احتساب: اب وقت آچکا ہے کہ اپنے گریبان میں جھانک کر ذمہ دارانہ انداز سے صحیح محاسبہ کریں اور
Flag Counter