Maktaba Wahhabi

425 - 523
ہاں، ہاں، اس مہینے وہ سعید اور خوش نصیب ہوا جسے اخلاص کے ساتھ، آخر میں محاسبہ نفس، توبہ و استغفار اور اعمال صالحہ کی توفیق نصیب ہوئی، کیونکہ اعمال کا دارومدار خاتموں پر ہوتا ہے۔[1] عمل سے زیادہ قبولیتِ عمل: برادران ایمان! سلف صالحین عمل میں عمدگی اور کمال پیدا کرنے کی پوری کوشش کرتے، پھر اس کے بعد اس کی قبولیت کے لیے اہتمام کرتے اور اس ڈر میں رہتے کہ کہیں یہ رد نہ کر دیا جائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’عمل سے زیادہ قبولیتِ عمل کو اہمیت دو۔ کیا تم نے یہ قولِ رحمن نہیں سنا: {اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ} [المائدۃ: ۲۷] ’’اﷲ تعالیٰ صرف متقین سے قبول کرتے ہیں۔‘‘[2] امام مالک بن دینار رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’یہ خوف کہ ’’شائد عمل قبول نہ ہو‘‘ عمل سے زیادہ شدید ہے۔‘‘[3] فضالہ بن عبید فرماتے ہیں: ’’اگر مجھے علم ہوجائے کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھ سے ایک نیکی قبول کرلی ہے تو یہ میرے لیے دنیا و ما فیہا سے کہیں بہتر ہے۔‘‘[4] رمضان کی برکات آخر تک سمیٹ لیں: اﷲ اکبر! یہ ہے کمر کسنے والوں کی حالت۔ اے رب! ہم تیری رحمت اور عفو کے طالب ہیں۔ ہم کمزوروں پر رحم فرما۔ ہاں، اس صیام و قیام کے مہینے پر اﷲ تعالیٰ کی سلامتی ہو، اس تراویح و تلاوت اور ذکر و تسبیح کے مہینے کو مبارک ہو۔ وہ ایسے گزر گیا جیسے آنکھ کا جھپکنا یا بجلی کا چمکنا۔ یہ نیکی کی دوڑ اور تقوے کے مقابلے کا میدان تھا۔ یاد رہے یہ لا محالہ کوچ کرنے والا ہے، لہٰذا اسے الوداع کہنے کے لیے اس کے ساتھ ساتھ آخر تک چلو۔ اس کے باقی ماندہ ہر لمحے اور ساعت کو اچک لواور ضائع ہونے سے بچا لو۔ کوئی مہینہ اس مہینے کا بدل ہے نہ کوئی فریضہ اس میں سر انجام دیے ہوئے فریضے کی طرح
Flag Counter