Maktaba Wahhabi

241 - 692
’’اے ابوبکر!ان دو ہستیوں کے بارے میں تمھاراکیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہو۔‘‘[1] اس واقعہ میں ایمان و توکل کے اعلیٰ حقائق نمایاں ہیں،غور فرمائیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسباب کا انکار نہیں کیا اور نہ ان پر کلی اعتماد کیا اور واقعی مومن کے لیے آخری سبب وسہارا یہی ہوتا ہے کہ اللہ کے آگے گر جائے اور پورے اطمینان و وثوق کے ساتھ معاملہ اس کے سپرد کر دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار سے بچنے کے لیے جملہ اسباب مہیا کیے تھے حتیٰ کہ اس تاریک غار میں چھپے جس میں خوفناک سانپوں اور بچھوؤں کا بسیرا تھامگر جب آپ کے ساتھی کو خوف اور غم نے گھیرا تو ایمان کے کس اعتماد ووثوق اور توکل کے کس اعلیٰ یقین کی بنیاد پر آپ نے فرمایا:’لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا مَا ظَنُّکَ یَا أَبَا بَکْرٍ!بِاثْنَیْنِ،اللّٰہُ ثَالِثُھُمَا‘ ’’غم نہ کر،اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ابوبکر(رضی اللہ عنہ!)تمھارا کیا گمان ہے ان دو کے متعلق جن کے ساتھ تیسرا اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے؟‘‘[2] درحقیقت مسلمان کا نظریۂ اسباب،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ اور آپ کی تعلیم سے مستفاد ہے،یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ مسلمان اس بارے میں محض مقتدِی اور فرماں بردار ہے۔ اسی طرح خود اعتمادی کا وہ مفہوم بھی جو گناہوں میں آلودہ،حواس باختہ اور بیوقوف لوگوں نے گھڑ رکھا ہے،ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ہے،جن کے ہاں اللہ تعالیٰ سے تعلق توڑ لینا ہی خود اعتمادی کہلاتا ہے ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ بندہ اپنے اعمال کا خود خالق ہے اور اپنے کسب ونفع کا حصول وہ خود کرتا ہے،اللہ کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس ان کے اوہام سے پاک ہے۔ مسلمان کا توکسب وعمل پر اعتماد اس یقین کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ صرف اللہ کا محتاج ہے،کسی اور کا نہیں اور اس احتیاج کا اظہار بھی اسی کے آگے کرتا ہے۔اگر وہ کام خود کرتا ہے تو اس کا بھروسا اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر ہوتا ہے۔اگر درمیان میں کوئی رکاوٹ آجائے تو اس کے سوا کسی سے مدد نہیں مانگتا،اس لیے کہ اس کا دل غیر اللہ کے تعلق سے بری ہوچکا ہے اور غیر اللہ سے ایسا تعلق اسے پسند نہیں ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم،سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم کا طرز عمل اور صدیقین رحمۃ اللہ علیہم کا پسندیدہ طریقہ بھی یہی تھا،ان میں سے اگر کسی کے ہاتھ سے چابک گر جاتا تو گھوڑے سے اتر کر خود اسے اٹھاتا،کسی کو نہ کہتا کہ مجھے یہ اٹھا دو۔[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت میں مسلمانوں سے اقامت نماز،ادائیگیٔ زکاۃ اور اس بات کا وعدہ لیا کرتے تھے کہ وہ
Flag Counter