Maktaba Wahhabi

720 - 692
اس کی ملکیت سے خارج ہو رہی ہے۔ ولاء کا بیان: ولاء کی تعریف: آزادی کے نتیجے میں غلام کا آزاد کرنے والے کے ساتھ جو تعلق و رشتہ قائم ہوتا ہے،اسے ولاء کہتے ہیں اور آزاد کرنے والا اس کا عصبہ قرار پاتا ہے۔غلام کے مرتے وقت اگر اس(غلام)کا کوئی عصبہ نسبی نہیں ہے تو یہ آزاد کرنے والااور اس کی عدم موجودگی میں اس کے عصبات(رشتہ دار)اس آزاد شدہ غلام کے وارث ہوتے ہیں،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((إِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ))’’ولاء کا حق اس کے لیے ہے جس نے آزاد کیا ہے۔‘‘[1] ٭ ولاء کا حکم: ولاء مشروع اور جائز ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ﴾’’یہ غلام تمھارے دینی بھائی اور دوست ہیں۔‘‘[2] اور آپ کا فرمان ہے:((إِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ))’’(وراثت)ولاء اس کے لیے ہے جس نے(غلام کو)آزاد کیا ہے۔‘‘[3] اور آپ نے یہ بھی فرمایا:((اَلْوَلَائُ لُحْمَۃٌ کَلُحْمَۃِ النَّسَبِ،لَا یُبَاعُ وَلَا یُوھَبُ))’’ولاء نسب کے تعلق کی طرح ایک تعلق ہے۔اسے نہ بیچا جا سکتا ہے اور نہ ہبہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘[4] ٭ ولاء کے احکام: 1: جس طرح بھی غلام آزاد ہوا ہومکاتبت کے ذریعے یا تدبیر کی صورت میں یا کسی اور ذریعے سے(بہر صورت)ولاء اس شخص کے لیے ہو گی جس نے اسے آزاد کیا۔ 2: ولاء نہ بیچی جا سکتی ہے اور نہ ہبہ کی جا سکتی ہے۔بنا بریں یہ تعلق بیع و ہبہ وغیرہ کے ذریعے سے کسی اور کی طرف منتقل بھی نہیں کیا جا سکتا،٭ اس لیے کہ یہ ایک نسب ہے اور نسب فروخت کی جانے والی چیز نہیں ہے اور نہ کسی حال میں اسے ہبہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ آپ کا فرمان عالی ہے:((اَلْوَلَائُ لُحْمَۃٌ کَلُحْمَۃِ النَّسَبِ،لَا یُبَاعُ وَلَا یُوھَبُ)) ’’ولاء نسب کی طرح ایک تعلق ہے،جسے نہ بیچا جا سکتا ہے اور نہ ہبہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘[5] 3: ولاء میں آزاد کرنے والا مرد ہے یا عورت،وہ آزاد کردہ غلام یا لونڈی کا وارث ہو گا۔اگر آزاد کرنے والاشخص اپنے آزاد کردہ غلام کی وفات کے وقت زندہ موجود نہیں تو اس کے عصبہ نسبی وارث ہوں گے،وہ بھی مرد،عورتیں وارث نہیں ہوں گی جیسا کہ ’’علم میراث‘‘ میں اس کی توضیح ہو چکی ہے۔ ٭ آزاد کرنے والااپنے علاوہ کسی دوسرے شخص کو ولاء کا حق دار نہیں بنا سکتا،پیسے کے لالچ میں نہ محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر۔(ع،ر)
Flag Counter