Maktaba Wahhabi

243 - 692
باب:4 ایثار وقربانی اور نیکی سے پیار مسلمان کے اخلاق میں اور جو فیوض و برکات اس نے دینی تعلیمات اور محاسنِ اسلام سے حاصل کی ہیں،ان میں ایثار اور دوسروں سے محبت کرنا بھی شامل ہے،چنانچہ جب بھی وہ ایثار کا موقع محل پاتا ہے تو اپنے اوپر دوسرے کو فوقیت دیتا ہے،خود بھوکا رہتا ہے مگر دوسرے کو پیٹ بھر کر کھلاتا ہے،خود پیاسا رہتا ہے مگر ساتھی کی پیاس بجھاتا ہے بلکہ وہ تو دوسروں کی زندگی کے لیے اپنی جان قربان کرنے کا جذبہ بھی رکھتا ہے۔ایثار کا یہ جذبہ کسی ایسے فرد کے لیے قطعًا کوئی عجیب و غریب بات نہیں ہے جو بہترین صفات سے متصف اور اچھائی اور فضل و ایثار کی محبت سے سرشار ہو۔ یہ اللہ کا رنگ ہے اور اس کے رنگ سے کس کا رنگ بہتر ہو سکتا ہے۔مومن ایثار ومحبت کی اس بھلائی میں سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم کے نقش قدم پر چلتا ہے،جن کی تعریف میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ ’’اور وہ اپنے آپ پر(دوسروں کو)ترجیح دیتے ہیں،خواہ انھیں خود احتیاج ہی ہو اور جو نفس کی کنجوسی سے بچالیے گئے،وہی کامیاب ہیں۔‘‘[1] مسلمان کے جملہ اخلاق فاضلہ اور تمام صفات حسنہ،قابل تعریف حکمت محمدی کے چشمہ ٔ صافی سے ماخوذ ہیں یا رحمت الٰہی سے فیضان سے الہام شدہ۔نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ‘ ’’کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘[2] اس ہدایت پر عمل کرنے سے مسلمان کی عادات میں رفعت وعظمت اور بلندی حاصل ہوتی ہے۔ارشاد ربانی ہے: ﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ ’’اوروہ اپنے آپ پر(دوسروں کو)ترجیح دیتے ہیں،چاہے خود محتاج ہوں اور جو نفس کی کنجوسی سے بچالیاگیا وہی کامیاب ہے۔‘‘[3] اس آیت کا ماننے والا اپنے نفس،اہل اور اولاد پر دوسرے مستحق لوگوں کو فوقیت دے گا۔اور اس ایثار میں وہ
Flag Counter