Maktaba Wahhabi

648 - 692
سہام دس ہو جائیں گے اور یہی مقصود ہے۔ ٭ پانی میں ڈوبنے والے: جب ایک سے زائد افراد پانی میں بیک وقت غرق ہوں یا کسی اور حادثہ کا شکار ہوں،مثلاً:عمارت کے نیچے آ کر ہلاک ہوں یا آگ میں جل جائیں یا ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہوں اور کسی کی موت کی تقدیم و تاخیر کا علم نہ ہو سکے تو حکم یہ ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں بنتے بلکہ زندہ افراد ہی اپنے مرنے والوں کے وارث ہوں گے۔اس کی مثال یہ ہے کہ کسی حادثہ میں دو بھائی فوت ہو گئے اور یہ معلوم نہ ہو سکا کہ پہلے کون فوت ہوا ہے۔ان میں سے ایک اپنے پیچھے بیوی،بیٹی اور چچا چھوڑ گیا،جبکہ دوسرا دو بیٹیاں اور مذکور چچا چھوڑ گیا تو دونوں کی جائیداد کے وارث مذکور ورثاء ہیں۔یہ بھائی ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے۔پہلی صورت میں بیوی آٹھواں حصہ لے گی،بیٹی نصف اور باقی چچا لے گا اور دوسری صورت میں دو تہائی اس کی دونوں بیٹیاں لیں گی اور باقی تہائی اس کا چچا لے گا۔ ذوی الارحام کی وراثت کے احکام و مسائل: ٭ ذوی الارحام کون ہیں ؟ ذوی الارحام ان قرابت داروں کو کہا جاتا ہے جو نہ اصحاب الفروض سے ہوں اور نہ ہی عصبہ سے،جیسا کہ ماموں،خالہ،پھوپھی،چچا کی بیٹی،بھانجا،بھانجی اور بیٹی کی اولاد اور اسی طرح کے دیگر قرابت دار جو وارث نہیں ہوتے،اس لیے کہ یہ رشتے دار نہ تو اصحاب الفروض میں سے ہیں اور نہ عصبات میں سے۔ ٭ ذوی الارحام کی وراثت کا حکم: ان کے وارث ہونے کے بارے میں اختلاف ہے۔بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم،تابعین اور ائمہ رحمۃ اللہ علیہم ان کی وراثت کے قائل نہیں،اس لیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ان کو وارث نہیں بنایا بلکہ وراثت اصحاب الفروض اور عصبات میں منحصر کی ہے۔امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ بھی ان آئمہ میں شامل ہیں جو انھیں وارث نہیں گردانتے،البتہ بعض علماء ان کی وراثت ثابت کرتے ہیں جن میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ شامل ہیں۔ان کا استدلال ان آثار سے ہے جن سے ذوی الفروض و عصبات کی عدم موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض ذوی الارحام کو وارث بنانا ثابت ہے۔جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’اَلْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَّا وَارِثَ لَہُ‘’’ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہیں۔‘‘[1] ٭ راجح مذہب: ان فقہاء کا مذہب راجح ہے جو ذوی الارحام کو وارث قرار دیتے ہیں۔یہی و جہ ہے کہ بعد کے بہت سے مالکی اور شافعی فقہاء بھی اس کے قائل ہو گئے ہیں،اس لیے کہ ذوی الارحام سے ہونا بھی ایک قرابت ہے اور ان سے دوسرا تعلق اسلام کا بھی ہے،جبکہ بیت المال کے ساتھ،مرنے والے کا صرف ایک تعلق’’اسلامی‘‘ ہے۔مزید برآں
Flag Counter