Maktaba Wahhabi

572 - 692
’لَا نِکَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ‘ ’’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے۔‘‘[1]اور عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:((لَا تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ إِلَّا بِإِذْنِ وَلِیِّھَا،أَوْ ذِي الرَّأْيِ مِنْ أَھْلِھَا أَوِ السُّلْطَانِ)) ’’ولی یا اس کے خاندان میں سے سمجھدار یا حاکم کی اجازت کے بغیر عورت کا نکاح نہ کیا جائے۔‘‘[2] ٭ ولی کے احکام: درج احکام کو مدنظر رکھنا ولایت کے بارے میں ضروری ہے۔ ٭ ’’ولی‘‘ کا ولایت کی اہلیت کا حامل ہونا ضروری ہے،یعنی وہ مرد،بالغ،عاقل،معاملہ فہم اور آزاد ہو۔ ٭ اگر عورت کنواری اور’ ’ولی‘‘ باپ ہو تو باپ اس سے اجازت حاصل کرے کہ وہ اس کا فلاں کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا ہے اور اگر وہ عورت بیوہ ہے یا ’’ولی‘‘ غیر باپ ہے تو صریح الفاظ میں اس کی رائے حاصل کرے،اس لیے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’اَلْأَیِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِھَا مِنْ وَّلِیِّھَا،وَالْبِکْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِھَا،وَإِذْنُھَا صُمَاتُھَا‘ ’’بیوہ اپنے نفس کی اپنے ’’ولی‘‘ سے زیادہ حق دار ہے اور کنواری سے اجازت حاصل کی جائے اور اس کی خاموشی اس کی اجازت ہے۔‘‘[3] ٭ اقرب(زیادہ قریبی)کے ہوتے ہوئے ابعد(دور کا رشتہ دار)’’ولی‘‘ نہیں بن سکتا،لہٰذا حقیقی بھائی کی موجودگی میں پدری بھائی(جو صرف باپ کی طرف سے ہو)’’ولی‘‘ نہیں ہو گا اور نہ بھائی کی موجودگی میں بھتیجا ولی بن سکتا ہے۔ ٭ اگر عورت نے اپنے قرابت داروں میں سے دو کو اپنا نکاح کر دینے کی اجازت دی ہے اور دونوں نے ایک ہی وقت میں اس سے نکاح کیا ہے تو دونوں نکاح باطل ہوں گے۔ 2 گواہ: عقد نکاح میں کم از کم دو عادل مسلمانوں کا حاضر ہونا ضروری ہے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ﴾ ’’اور اپنے میں سے دو عادل مردوں کو گواہ بناؤ۔‘‘[4]
Flag Counter