Maktaba Wahhabi

91 - 692
’’تو اللہ،اس کے فرشتوں،اس کی کتابوں،اس کے رسولوں،آخرت کے دن اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے۔‘‘[1] ارشادِ نبوی ہے:’اِعْمَلُوا فَکُلٌّ مُّیَسَّرٌ لِّمَا خُلِقَ لَہُ‘ ’’عمل کرو۔ہر ایک کو اسی چیز کی توفیق ملتی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔‘‘[2] حدیث نبوی ہے:’فَإِنَّ النَّذْرَ لَا یَرُدُّ شَیْئًا مِّنَ الْقَدَرِ‘ ’’بے شک نذر(اللہ تعالیٰ کے)فیصلے میں سے کچھ بھی نہیں بدلتی ‘‘(بلکہ تقدیر کا حصہ ہوتی ہے۔)[3] عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’ أَلَا أُعَلِّمُکَ کَلِمَۃً ہِيَ مِنْ کُنُوزِالْجَنَّۃِ:لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ‘ ’’کیا میں تجھے ایک ایسا جملہ نہ سکھاؤں جو بہشت کے خزانوں میں سے ہے۔(اور وہ)لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ ہے۔یعنی گناہوں سے بچنے اور نیکی کرنے کی طاقت صرف اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ملتی ہے۔‘‘[4] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو تعلیم دی کہ یوں نہ کہو:’’جو اللہ تعالیٰ چاہے اور آپ چاہیں ‘‘ بلکہ کہو:’’جو صرف اللہ واحد چاہے۔‘‘[5] 3: امت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)میں لاکھوں علماء،حکماء اور صالحین وغیرہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور تقدیر کے قائل ہیں،اس کی حکمت و مشیت پر یقین کامل رکھتے ہیں اور یہ کہ ہر چیز کے بارے میں اسے پہلے ہی علم ہے اور ہر چیز پر اس کی تقدیر جاری ہے۔اس کی سلطنت میں وہی ہو سکتا ہے جو وہ ارادہ کرتا ہے۔وہ جو چاہتا ہے،ہو جاتا ہے اور جو نہیں چاہتا،نہیں ہوتا اور قلم نے قیامت تک کی سب چیزوں کی تقدیر لکھ دی ہے۔ عقلی دلائل: 1: قضا و قدر،مشیت و حکمت اور ارادہ و تدبیر میں سے عقل کسی کا انکار نہیں کرتی بلکہ عقل سے ان کا اثبات ہوتا ہے کیونکہ اس کائنات میں اس کے واضح مظاہر موجود ہیں۔ 2: اللہ تعالیٰ اور اس کی قدرتِ کاملہ کا یقین،اس کی قضا و قدر اور حکمت و مشیت کا متقاضی بلکہ اسے مستلزم ہے۔ 3: ایک انجینئر چھوٹے سے کاغذ پر ایک محل کا نقشہ بنا کر اس کی تعمیر کا وقت متعین کرتا ہے اور اس پر کام شروع کر دیتا ہے تو متعینہ مدت ہی میں وہ محل بغیر کمی و بیشی کے صفحۂ ہستی پر نمودار ہو جاتا ہے۔تو پھر اس سے کیسے انکار کیا جا سکتا
Flag Counter