Maktaba Wahhabi

537 - 692
زکاۃ تقسیم کرنا،میت یا عاجز کی طرف سے حج اور عمرے کی ادائیگی کرنا۔ 3: حدود ثابت کرنے(جرم کی تحقیق کرنے)اور حدود کے نفاذ میں بھی وکالت صحیح ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس رضی اللہ عنہ کو حکم دیا:’أُغْدُ یَا أُنَیْسُ!إِلَی امْرَأَۃِ ھٰذَا،فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْھَا‘ ’’انیس!اس شخص کی عورت کے پاس جاؤ اگر وہ اعتراف جرم کر لے تو اسے سنگسار کر دینا۔‘‘[1] 4: جن عبادتوں میں ایک آدمی دوسرے کا نائب نہیں بن سکتا،جیسا کہ نماز اور روزہ،ان میں کوئی شخص اپنا وکیل مقرر نہیں کر سکتا۔اسی طرح لعان،ظہار،امان،نذریں اور شہادات وغیرہ ان میں بھی وکالت نہیں ہے اور اسی طرح حرام اور ناجائز کاموں میں بھی کوئی دوسرے کا وکیل نہیں بن سکتا۔ 5: وکیل اور مؤکل میں سے جو بھی ’’وکالت‘‘ فسخ کرنا چاہے،کر سکتا ہے اور دونوں میں سے ایک کی موت اور جنون سے بھی وکالت ختم ہو جاتی ہے اور اسی طرح ’’مؤکل‘‘ کے(وکیل کو)معزول کرنے سے بھی۔ 6:خرید و فروخت کا وکیل درج ذیل افراد سے خرید و فروخت نہیں کر سکتا: اپنے آپ سے،اپنی اولاد سے،اپنی بیوی سے اور ان قرابت داروں سے جن کی شہادت اس کے حق میں معتبر نہیں ہے،اس لیے کہ ایسا کرنے میں اس پر قرابت داروں کو نوازنے کا الزام ہو سکتا ہے اور وقتی حصہ دار،صاحب وصیت(جسے قریب المرگ نے وصیت کی،)مستقل شریک،قاضی اور ناظم اوقاف اس بات میں وکیل ہی کی طرح ہیں۔ 7: وکیل سے اگر کوئی نقصان ہو جائے اور اس نے کوتاہی نہیں کی تھی تو وہ ’’ضامن‘‘ نہیں ہے لیکن اگر نقصان میں اس کی کوتاہی یا زیادتی کا دخل ہو تو وہ ضامن ہو گا۔ 8: علی الاطلاق وکیل مقرر کرنا بھی ممکن ہے جس میں مؤکل اپنے تمام حقوق میں کسی کو وکیل بناتا ہے،اور طلاق جیسے امور،جن میں ارادے اور عزم کو دخل ہوتا ہے،کے علاوہ دیگر شخصی حقوق میں یہ وکیل مؤکل کے لیے تصرف کر سکتا ہے۔ 9: اگر مؤکل نے وکیل کو ایک متعین چیز خریدنے کا کہا ہے تو وہ اس کے بجائے کوئی دوسری چیز نہیں خرید سکتا،اگر وہ ایسا کرتا ہے تو مؤکل کو اختیار ہے کہ اسے قبول کرے یا رد کر دے۔ 10: وکیل اجرت بھی لے سکتا ہے،البتہ کام اور اجرت کا تعین ضروری ہے۔ ٭ وکالت کا تحریری نمونہ: نمونہ شرعی وکالت نامہ: اللہ کی حمد وثنا کے بعد: (رو برو مسمیٰ بہ ... قاضی عدالت ...)فلاں ...بن فلاں ... نے
Flag Counter