صالحین کی قبروں پر ان کی محبت کے پیش نظر اگر کوئی شخص قبے تعمیر کرتا ہے،ان کے نام پر جانور ذبح کرتا ہے اور ان کے لیے نذریں مانتا ہے تو یہ بھی گناہ اور اللہ کی نافرمانی ہے،چاہے وہ اپنے خیال میں نیکی اور ثواب کا کام کر رہا ہے کیونکہ نیت سے وہی کام اطاعت قرار پاتا ہے جو مباح ہو اور اس کے کرنے کی شریعت میں اجازت ہو،حرام کام کسی طرح بھی اطاعت نہیں بن سکتا۔
باب:2 اللہ تعالیٰ کا ادب
مسلمان جانتا ہے کہ رحمِ مادر میں بصورتِ نطفہ ٹھہرنے سے لے کر تدریجی مراحل طے کر تے ہوئے اللہ عزوجل کے ہاں چلے جانے تک اسے اللہ تعالیٰ کے بے شمار احسانات اورانعامات اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔
لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے جو اس کے استحقاق وعُلُوِّشان کے مطابق ہو اور اپنے اعضاء اس کی اطاعت کے کاموں میں لگائے رکھے،یہ ہے اللہ جل شانہ کی جناب میں انسان کا ادب ملحوظ رکھنا۔منعمِ حقیقی کے فضل و کرم کا انکار اوراس کے احسانات کی ناشکری اس کے احترام کے منافی اور بے ادبی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ﴾
’’اور تمھیں جو نعمتیں(میسر)ہیں،وہ اللہ کی طرف سے ہیں۔‘‘ [1]
باری تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوهَا﴾
’’اور اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرنا چاہو بھی تو نہیں کر سکتے۔‘‘ [2]
ارشادِ باری ہے:﴿فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ﴾
’’پس تم مجھے یاد کرو میں تمھیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔‘‘ [3]
اللہ رب العزت کو ماننے والا ایک انسان جب اپنے ذہن و فکر میں یہ عقیدہ راسخ پاتا ہے کہ ربِّ کائنات کو اس کی ذات اور اس کے سب احوال کا مکمل علم ہے تو اس کے دل میں معبود حقیقی کے رعب و ہیبت کی ایک کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور رب جلیل کی عظمت و توقیر کا شعور اس کے دل کی گہرائیوں میں جاگزیں ہوجاتا ہے،جس کے نتیجے میں انسان اس کی نافرمانی میں شرمندگی،ندامت اور خفت محسوس کرتا ہے کیونکہ کوئی غلام اپنے آقا کی نظروں کے سامنے نافرمانی نہیں کر سکتا اور اس کے سامنے گندے اور رذیل کام نہیں بجا لا سکتا۔
ارشادِ الٰہی ہے:﴿مَّا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلّٰهِ وَقَارًا﴿١٣﴾وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا﴾
|