Maktaba Wahhabi

619 - 692
٭ نسبی قرابت: وارث میت کے اصول،یعنی ماں باپ،دادا دادی و نانی میں سے ہو یا فروع،یعنی اولاد میں سے ہو یا حواشی،یعنی اطراف،مثلاً:بہن بھائی اور بھائی کی اولاد،چچا اور اس کے بیٹوں میں سے ہو۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ﴾’’اور ہر ایک مال میں جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں،ہم نے حقدار مقرر کیے ہیں۔‘‘[1] ٭ نکاح: عورت کے ساتھ صحیح عقد کا نام نکاح ہے،چاہے رخصتی اور خلوت(جماع)حاصل ہو یا نہ ہو۔میاں بیوی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ﴾’’اورتمھاری بیویوں کے ترکہ میں سے تمھارے لیے نصف ہے۔‘‘[2] میاں،بیوی طلاق رجعی کی صورت میں بھی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے(جبکہ بیوی ابھی عدت میں ہو)،نیز مرض الموت میں وراثت سے محروم کرنے کے لیے طلاق دینے والے شخص کی مطلقہ بیوی بائنہ ہونے کے باوجود اس کی وارث ہو گی۔ ٭ ولاء: یعنی ایک شخص نے کسی غلام یا لونڈی کو آزاد کیا ہے تو اس آزادی کے سبب آزاد کرنے والا اپنے آزاد کردہ غلام اور لونڈی کا وارث ہو گا،چنانچہ اگر آزاد شدہ فوت ہو جائے اور اس کا کوئی وارث نہ ہو تو یہ آزاد کرنے والا اس کا وارث ہو گا،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((اَلْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ))’’(آزاد کردہ کی)ولاء(حق وراثت)اس شخص کے لیے ہے جس نے اسے آزاد کیا۔‘‘[3] موانع وراثت: سبب وراثت کی موجودگی کے باوجود بعض موانع(رکاوٹیں)وارث کو وراثت سے محروم کر دیتے ہیں،اور وہ حسب ذیل ہیں: ٭ کفر: رشتہ داری کے باوجود مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو گا اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہو گا،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’لَا یَرِثُ الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ،وَلَا الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ‘ ’’کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو سکتا۔‘‘[4] ٭ قتل: قاتل نے اگر جان بوجھ کر عَمْدًا کسی قریبی کو قتل کر دیا ہو تو سزا کے طور پر اسے مقتول کی جائیداد سے محروم٭ کر دیا جائے گا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’لَیْسَ لِلْقَاتِلِ شَيْئٌ‘(یَعْنِي مِنْ تَرِکَۃِ الْمَقْتُولِ) ٭ اس میں ایک حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جائیداد کو جلد پالینے کے لالچ میں کوئی اپنے قریبی کو قتل نہ کرے۔(ع،ر)
Flag Counter