Maktaba Wahhabi

556 - 692
ہے تو بعد از بلوغت سمجھدار ہونے تک پابند رہے گا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ﴾ ’’اور بالغ ہونے تک یتیموں کا امتحان لو،پھر(بالغ ہونے پر)اگر تم ان میں سوجھ بوجھ محسوس کرو تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔‘‘[1] 2 بے وقوف: جو شخص مال کی افادی حیثیت کی عدم معرفت کی وجہ سے اپنی خواہشات نفس میں مال کو ضائع کر دے تو ورثاء کے مطالبے پر اس پر پابندی لگائی جا سکتی ہے،تب اسے ہبہ،بیع اور خریداری سے روک دیا جائے،جب تک عقل کی پختگی و رشد اس میں نہ آئے۔اگر پابندی کے دوران میں کوئی مالی تصرف کرے گا تو باطل ہو گا اور نافذ نہیں ہو گا۔ہاں،پابندی سے پہلے کے تصرفات نافذ ہوں گے۔ 3 دیوانہ: جس کی عقل میں خلل اور فتور واقع ہو جائے اس پر پابندی ہو گی اور اس کے مالی تصرفات نافذ نہیں ہوں گے،جب تک اس کی عقلی صلاحیت بحال نہیں ہوتی،اس لیے کہ آپ کا فرمان ہے:((رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَۃٍ:عَنِ النَّائِمِ حَتّٰی یَسْتَیْقِظَ،وَعَنِ الصَّغِیرِ حَتّٰی یَکْبُرَ،وَ عَنِ الْمَجْنُونِ حَتّٰی یَعْقِلَ أَوْیُفِیقَ)) ’’تین آدمی مرفوع القلم ہیں،سویا ہوا،جاگنے تک،بچہ بالغ ہونے تک اور دیوانہ درست ہونے تک۔‘‘[2] 4 بیمار: اس سے وہ مریض مراد ہے جو ایسے مرض میں مبتلا ہے جس سے عموماً انسان مر ہی جاتا ہے تو ایسے مریض پر اس کے ورثاء پابندی کا مطالبہ کر سکتے ہیں تاکہ وہ بنیادی ضروریات سے زیادہ خرچ نہ کر سکے،یعنی خوراک،لباس،رہائش اور علاج وغیرہ کے علاوہ یہاں تک کہ وہ صحت یاب ہوجائے یا مرجائے۔ مفلس کا بیان: ٭ مفلس کی تعریف: کسی شخص پر اتنا قرض ہو جائے کہ اس کی ملکیت کی(بنیادی ضرورت،گھر،سواری وغیرہ کے علاوہ)تمام اشیاء بھی دے دی جائیں تو پھر بھی پورے قرض ادا نہ ہو سکیں تو وہ ’’مفلس‘‘ کہلاتا ہے۔ ٭ مفلس کے احکام: 1: قرض خواہوں کا مطالبہ ہو تو اس پر مال میں تصرف کرنے کی پابندی لگا دی جائے۔ 2: لباس اور ضروریات زندگی کے علاوہ،اس کا تمام مملوکہ مال فروخت کر دیا جائے اور قرض خواہوں کے حصوں کے مطابق قرضے ادا کر دیے جائیں۔ 3: اگر مقروض کے پاس کسی قرض خواہ کا اپنا سامان موجود ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو وہ اپنا سامان لے سکتا ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
Flag Counter