Maktaba Wahhabi

413 - 692
6: ایک شہر کی زکاۃ دوسرے شہر میں جو نماز قصر کرنے کی مسافت پر ہے،منتقل نہ کی جائے یا اس سے بھی بعید،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’تُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِ ھِمْ‘ کہا ہے،جس کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ اسی شہر کے فقراء میں زکاۃ تقسیم کی جائے،البتہ علماء نے اس سے یہ صورت مستثنیٰ قرار دی ہے کہ اغنیاء کے شہر میں اگر فقراء نہ ہوں یا دوسرے شہر میں ضرورت زیادہ ہو تو ایک شہر سے دوسرے شہر میں زکاۃ منتقل کی جاسکتی ہے۔بہرصورت ذمہ دار افراد اس پر غور کریں گے۔ 7: ایک شخص نے مستحق زکاۃ سے قرض لینا ہے،اگر اسے قرض کی ادائیگی کی توقع ہے کہ جب ہی میں قرض طلب کروں گا،وہ کوشش کر کے اس کی ادائیگی کر دے گا تو وہ زکاۃ میں اسے رکھ سکتا ہے لیکن اگر اسے اس فقیر سے قرض کی وصولی کی امید نہیں ہے یا اس نیت سے زکاۃ دیتا ہے کہ فقیر یہی رقم مجھے واپس قرض میں دے دے گا تو اس طرح ادائیگیٔ زکاۃ ناجائز ہو گی۔ 8: زکاۃ کی ادائیگی نیت کے بغیر نہیں ہوگی،اگر نیت کے بغیر کسی کو دے دی توزکاۃ ادا نہیں ہو گی،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ،وَإِنَّمَا لِکُلِّ امْرِی ئٍ مَّا نَوٰی‘ ’’اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے اور ہر انسان کے لیے وہ ہے جو وہ نیت کرے۔‘‘ [1] لہٰذا دینے والے پر لازم ہے کہ وہ اپنے مال کی فرض زکاۃ ادا کرنے کی نیت کرے اور ارادہ محض اللہ کی رضا جوئی ہو،اس لیے کہ ہر عبادت میں اخلاص شرط ہے،جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ ’’اور انھیں یہی حکم ملا ہے کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں۔‘‘[2] صدقۂ فطر کا بیان: صدقۂ فطر کا حکم: مسلمانوں پر فطرانہ دینا واجب ولازم ہے،اس لیے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں: ’فَرَضَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم زَکَاۃَ الْفِطْرِ،صَاعًا مِّنْ تَمْرٍ أَوْصَاعًا مِّنْ شَعِیرٍ،عَلَی الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّکَرِ وَالْأُنْثٰی وَالصَّغِیرِ وَالْکَبِیْرِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ‘ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام اور آزاد،مرد اور عورت،چھوٹے اور بڑے سب مسلمانوں پر صدقۂ فطر کھجور یا جو کا ایک صاع فرض کیا ہے۔‘‘ [3]
Flag Counter