Maktaba Wahhabi

528 - 692
اسی طرح جب صحابۂ کرام میں سے ایک گروہ نے سانپ ڈسے ہوئے شخص کے ذمہ بکریوں کا ایک ریوڑ طے کیا،بعض کو اس کے جائز ہونے میں شک ہوا تو پو چھنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’خُذُوھَا وَاضْرِبُوا لِي بِسَھْمٍ‘ ’’انھیں لے لو اور میرا بھی ان میں اپنے ساتھ حصہ رکھو۔‘‘[1] صحا بۂ کرام کا اس شخص سے طے کرنا جِعالہ کی ایک شکل ہی ہے۔ ٭ جعالہ کے احکام: 1: انعام کی پیشکش ایک جائز ’’عقد‘‘ہے،دونوں فریق اس کو فسخ کر سکتے ہیں۔اگر کام سے پہلے معاہدہ فسخ ہو گیا تو عامل کو کچھ نہیں ملے گا اور اگر کام کے درمیان میں مالک کی طرف سے فسخ ہوا تو کام کی نوعیت کے مطابق اس کو اجرت ملے گی۔ 2: اس میں کام کی مدت متعین نہیں ہوتی۔بنا بریں اگر ایک شخص کہتا ہے کہ جو کوئی میرا گم شدہ یا بھاگ جانے والا جانور لا کر دے گا،میں اسے ایک دینار انعام دوں گا تو وہ جانور لانے پر دینار کا مستحق ہو جائے گا،چاہے ایک ماہ بعد لائے یا سال بعد۔ 3: اگر ایک جماعت انعام مقرر کردہ کام کرنے لگ جائے تو انعام ان میں برابر تقسیم ہو جائے گا۔ 4: حرام کام پر انعام مقرر کرنا جائز نہیں ہے،مثلاً:یہ کہنا کہ’ ’جو گانا گائے یا ساز بجائے یا فلاں کو مار آئے یا گالی دے اس کے لیے اتنا انعام ہو گا‘‘ناجائز ہے۔ 5: جو شخص کوئی گم شدہ چیز یا گم شدہ جانور واپس کرتا ہے یا کام کرنے لگ جاتا ہے اور اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ اس پر انعام مقرر ہو چکا ہے تو یہ انعام کا مستحق نہیں ہے،اس لیے کہ اس نے کام کی ابتدا نفلی طور پر اور اپنی خوشی سے کی تھی،لہٰذا یہ مستحق انعام نہیں ہے۔[2]البتہ بھاگے ہوئے غلام کو پکڑنے یا ڈوبتے کو بچانے پر اسے انعام سے نوازا جا سکتا ہے کہ یہ اس کی جرأت و بہادری کا صلہ ہے۔ 6: کسی حلال چیز کے بارے میں یہ کہنا کہ جو اسے کھا لے یا پی لے تو اس کے لیے اتنا انعام ہے تو یہ صحیح ہے۔ہاں،اگر یوں کہے جو اسے کھائے اور اس میں سے کچھ چھوڑ دے تو اس پر اتنی چٹی ہو گی تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ شرط بن جاتی ہے۔ 7: اگر مالک اور عامل دونوں انعام کی مقدار میں اختلاف کریں تو مالک کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہو گی اور اگر انعام کے ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف ہے تو بات عامل کی تسلیم ہو گی مگر قسم کے ساتھ۔
Flag Counter