Maktaba Wahhabi

390 - 692
سَلَفِ الْمُؤْمِنِینَ فِي کَفَالَۃِ إِبْرَاھِیمَ،وَأَبْدِلْہُ دَارًا خَیْرًا مِّنْ دَارِہِ وَأَھْلًا خَیْرًا مِّنْ أَھْلِہِ،وَعَافِہِ مِنْ فِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ جَھَنَّمَ‘ ’’اے اللہ!اسے اس کے والدین کے لیے پیش رو،ذخیرہ اور آگے جانے والا بنا اور اس کے ذریعے سے ان کا ترازو بھاری کر اور انھیں اجر عظیم عطا کر،ہمیں اور انھیں اس کے اجر سے محروم نہ کر اور نہ ہی ہمیں اور انھیں اس کے بعد آزمائش میں ڈال۔اے اللہ!اسے پہلے جانے والے صالح ایمان داروں کے ساتھ ابراہیم علیہ السلام کی کفالت میں ملا دے[1] اسے اس کے گھر سے بہتر گھر دے اور اسے اس کے اہل سے بہتر اہل دے اور اسے آزمائش قبر اور عذاب جہنم سے عافیت عطا فرما۔‘‘[2] 20 جنازے کے ساتھ چلنے کی فضیلت: جنازے کے ساتھ جانا مسنون ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’عُودُوا الْمَرِیضَ وَامْشُوا مَعَ الْجَنَازَۃِ تُذَکِّرْ کُمُ الْآخِرَۃَ‘ ’’بیمار کی عیادت کرو اور جنازے کے ساتھ چلو،یہ عمل تمھیں آخرت یاد کرائے گا۔‘‘[3] جنازہ جلدی اٹھانا چاہیے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((أَسْرِعُوا بِالْجَنَازَۃِ،فَإِنْ تَکُ صَالِحَۃً فَخَیْرٌ تُقَدِّمُونَھَا إِلَیْہِ،وَإِنْ تَکُ سِوٰی ذٰلِکَ فَشَرٌّ تَضَعُونَہُ عَنْ رِّقَابِکُمْ)) ’’جنازے میں جلدی کرو،اگر نیک ہے تو تم اچھائی کی طرف اسے لے جا رہے ہو اور اگر ایسا نہیں تو ’’شر‘‘ ہے،جسے تم جلدی اپنی گردنوں سے اتار لو گے۔‘‘[4] جنازے کے آگے چلنا بہتر ہے،اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم،ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ جنازے کے آگے چلتے تھے۔[5] جنازے کے ساتھ چلنے کی فضیلت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:((مَنِ اتَّبَعَ جَنَازَۃَ مُسْلِمٍ إِیمَانًا وَّاحْتِسَابًا،وَکَان مَعَہُ حَتّٰی یُصَلّٰی عَلَیْھَا وَیُفْرَغَ مِنْ دَفْنِھَا،فَإِنَّہُ یَرْجِعُ مِنَ الْأَجْرِ بِقِیرَاطَیْنِ،کُلُّ قِیراطٍ مِّثْلُ أُحُدٍ،وَمَنْ صَلّٰی عَلَیْھَا ثُمَّ رَجَعَ قَبْلَ أَنْ تُدْفَنَ،فَإِنَّہُ یَرْجِعُ بِقِیرَاطٍ))
Flag Counter