Maktaba Wahhabi

560 - 692
٭ وصیت کی شرطیں: 1: کسی کام کے لیے جس کو وصیت کی جا رہی ہے،وہ مسلمان،عاقل اور سمجھدار ہونا چاہیے،اگر جسے وصیت کی گئی ہے ان صفات کا حامل نہیں ہے تو حقوق کے ضائع ہونے یا نابالغ بچوں کی مراعات کے فقدان کا اندیشہ رہے گا۔ 2: بیمار کے لیے بھی شرط ہے کہ وہ وصیت کے وقت عقل اور ہوش و حواس کا حامل ہونا چاہیے اور جس چیز کے بارے میں وصیت کر رہا ہے وہ اس کا مالک بھی ہو۔ 3: جو’’وصیت‘‘کر رہا ہے،وہ مباح و حلال ہو،اگر حرام کی وصیت کی ہے تو نافذ نہیں ہو گی،مثلاً:ایک شخص وصیت کرتا ہے کہ میری موت کے بعد نوحہ(بین)کیا جائے یا نصاریٰ کے معبد کے لیے اتنا مال دیا جائے یا فلاں بدعت کا کام کیا جائے یا لہو و معصیت الٰہی کے کاموں کی محفل منعقد کی جائے وغیرہ۔ 4: جس کے لیے ’’وصیت‘‘کی ہے وہ وصیت قبول کر لے اگر وہ انکار کر دیتا ہے تو وصیت باطل ہو جائے گی اور بعدازاں اس کا اس میں کوئی حق نہیں ہو گا۔ ٭ وصیت کے احکام: 1: وصیت کرنے والا(اپنی زندگی میں)رجوع اور اس میں تغیر و تبدل کر سکتا ہے،اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: ’لِیُغَیِّرْ مَا شَائَ مِنْ وَّصِیَّتِہِ‘ ’’انسان اپنی وصیت میں سے جو چاہے تبدیل کر دے۔‘‘[1] 2: جس کے وارث ہوں،وہ تہائی مال سے زیادہ کی وصیت نہیں کر سکتا،اس لیے کہ سعد رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:کیا میں اپنے مال میں سے دو تہائی خیرات کر سکتا ہوں۔تو آپ نے فرمایا:’’نہیں ‘‘ عرض کی کل مال کا نصف خیرات کر سکتا ہوں۔فرمایا:’’نہیں۔‘‘ عرض کی کہ کل مال میں سے تہائی خیرات کروں۔فرمایا:’’ایک تہائی خیرات کرو اور تہائی بھی بہت ہے،تم اپنے ورثاء کو غنی چھوڑ جاؤ یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انھیں تنگدست چھوڑو(اور)وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔‘‘[2] 3: وارث کے لیے وصیت جائز نہیں،چاہے معمولی ہو ہاں،اگر دیگر ورثاء چاہیں(بشرطیکہ وہ عاقل و بالغ اور حاضر ہوں)تو اس کے حق میں وصیت کرسکتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((إِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی قَدْ أَعْطٰی لِکُلِّ ذِي حَقٍّ حَقَّہُ،فَلَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ)) ’’یقینا اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے(خود ہی ترکے کی تقسیم بتا دی ہے)،لہٰذا
Flag Counter