Maktaba Wahhabi

689 - 692
کے عوض کوئی چیز گروی رکھے)کے پاس اپنی ہی گروی رکھی ہوئی چیز چوری کر لی یا ملزم مزدور تھا اور اس نے ٹھیکے دار کے پاس سے اپنی اجرت اٹھا لی ہو۔ 4: مسروقہ مال حرام مال نہ ہو،مثلاً:شراب یا آلات موسیقی وغیرہ بلکہ اس مباح مال کی چوری میں ہاتھ کاٹنا ہے جو قیمت میں چوتھائی(1/4)دینار(سونا)کے برابر ہو،اس لیے کہ آپ کا ارشاد ہے:((لَا تُقْطَعُ یَدُ سَارِقٍ إِلَّا فِي رُبْعِ دِینَارٍ فَصَاعِدًا))’’چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے مگر چوتھائی دینار(1/4)یا اس سے زیادہ میں۔‘‘[1] 5: مال مسروق محفوظ جگہ سے اٹھایا گیا ہو،مثلاً:مکان،دکان،باڑہ اور صندوق وغیرہ سے جس میں مال کو محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ 6: جھپٹی مار کر مال نہ چھینا گیا ہو،مثلاً:ایک شخص کسی کے ہاتھ سے مال چھین کر بھاگ جائے اس میں قطع نہیں ہے۔اسی طرح غصب،یعنی زبردستی یا لوٹ کے ذریعے سے حاصل کردہ مال پر بھی قطع ید(ہاتھ کاٹنا)نہیں ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((لَیْسَ عَلٰی خَائِنٍ وَّلَا مُنْتَھِبٍ وَّلَا مُخْتَلِسٍ قَطْعٌ)) ’’خیانت کرنے والے،لوٹ اور جھپٹ کر مال لینے والے پر قطع نہیں ہے۔(ان کی سزا اور ہے)‘‘ [2] ٭ چور پر کیا واجب ہے: 1: چور مسروقہ مال کا ضامن ہے اگر اس کے پاس موجود ہے تو ادائیگی کرے اور اگر مال تلف ہو گیا ہے تو بھی اس کے ذمے قرض ہے،وہ اس کی ادائیگی کرے گا۔ 2: اللہ تعالیٰ کے حق کے طور پر اس کا ہاتھ کٹے گا،اس لیے کہ حدود اللہ تعالیٰ کے محارم ہیں(جنھیں کوئی معاف نہیں کر سکتا)اگر مذکورہ شرائط کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے عارضی طور پر قطع ید میں قانوناً توقف(تعطل)ہو جائے تو بھی وہ مالک کو مال مسروقہ کی ادائیگی ضرور کرے گا،خواہ مالک،صاحب ثروت ہے یا تنگ دست اور مال تھوڑا ہے یا زیادہ۔ ٭ ہاتھ کاٹنے کا طریقہ: چور کے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی جوڑ سے کاٹ دی جائے۔ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ت میں ہے:’فَاقْطَعُوا أَیْمَانَھُمَا‘’’ان کے دائیں ہاتھ کاٹ دو۔‘‘[3] پھر کھولتے گرم تیل میں اسے داغ لگا دیا جائے تاکہ خون بہنا بند ہو جائے۔ ٭ ان چیزوں کا بیان جن میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا: ’’غیر محفوظ‘‘ مال اٹھانے میں ہاتھ نہیں کٹتا اور جس مال کی
Flag Counter