Maktaba Wahhabi

270 - 692
خلیفہ اور امیر المؤمنین تھے۔ 4: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک دن کچھ کھجوریں خریدیں اور اپنی چادر میں باندھ لیں،ساتھیوں نے کہا:انھیں ہم اٹھا لیتے ہیں تو حضرت علی نے فرمایا:جن بچوں نے کھانی ہیں ان کا باپ اٹھائے یہ بہتر ہے۔[1] 5: سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ کی لونڈی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں چاہتی دوسرے لوگوں سے الگ(بات کرنے کے لیے)لے جاتی۔[2] 6: ابو سلمہ رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہا:لوگوں نے لباس،طعام،سواری اور پینے کی چیزوں میں کیا کیا ایجادات کر لی ہیں۔ابو سعید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:بھتیجے!آپ کا کھانا،پینا اور پہننا سب اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔اس میں اگر خودپسندی،فخر،ریا اور نمائش پیدا ہو جائے تو یہ گناہ اور اسراف ہے۔تو گھر کے کاموں میں وہ سب کام کر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔آپ اونٹ کو چارہ ڈالتے اور اسے باندھتے،گھر میں جھاڑو دیتے،بکری دوھتے،جوتے گانٹھتے،کپڑا پیوند کر لیتے،نوکر کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیتے،وہ تھک جاتا تو آٹا پیس دیتے،بازار سے چیزیں خرید لاتے اور اس میں کبھی کوئی عار محسوس نہ کرتے اور خریدی ہوئی چیز اپنے ہاتھ میں پکڑ کر لے آتے یا کپڑے میں باندھ کر گھر لے آتے۔غنی،فقیر،بڑے اور چھوٹے سب سے مصافحہ کرتے اور نمازیوں میں سے جو سامنے آ جاتا چھوٹا یا بڑا،کالا یا گورا،آزاد یا غلام،ہر ایک کو سلام کہنے میں پہل کرتے۔[3] باب:12 اخلاقِ سیئہ (ظلم،حسد،دھوکا،ریا،خود پسندی،عاجزی اور سستی و کاہلی) ظلم: مسلمان کسی پر ظلم نہیں کرتا،نہ اپنے آپ پر ظلم قبول کرتا ہے،یعنی نہ ہی اس سے کسی پر ظلم ہوتا ہے اور اگر اس پر کوئی ظلم وستم کرتا ہے تو وہ اسے بھی برداشت نہیں کرتا۔ظلم کی تین بنیادی اقسام ہیں اور تینوں کتاب و سنت کی رو سے حرام ہیں۔ارشاد ربانی ہے:﴿لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ﴾’’نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔‘‘[4] نیز ارشاد عالی ہے:﴿وَمَن يَظْلِم مِّنكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا﴾’’اور تم میں سے جو بھی ظلم کرے گا ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے۔‘‘[5]
Flag Counter