Maktaba Wahhabi

409 - 692
4: دالوں کی جملہ اقسام لوبیا،چنا،مسور،مٹر اور ترمس ٭ کو ایک نصاب میں شمار کیا جائے،اگر نصاب پورا ہو جائے تو جو دال زیادہ ہو اس میں سے ادائیگی کر دی جائے۔ 5: زیتون،مولی بیج اور تل(یاکشنیز)اگر نصاب کو پہنچ جائیں تو ان کے تیل سے ان کی زکاۃ نکالی جائے۔ 6: انگور کی جملہ اقسام ایک نصاب میں شمار کی جائیں اور زکاۃ دی جائے۔کشمش بنانے سے پہلے اگر انھیں فروخت کردیا گیا ہو تو نوع سیراب کے مطابق اس کی قیمت سے دسواں یا بیسواں حصہ زکاۃ میں دیا جائے۔ 7: چاول،مکئی اور کنگنی(باجرے کے مشابہ ایک غلہ ہوتا ہے جس کا رنگ زردی مائل ہوتا ہے)ہر ایک الگ الگ نوع ہے،انھیں ایک نہ بنایا جائے۔اگر ہر ایک نوع میں نصاب پورا نہیں ہوتا تو ان میں زکاۃ نہیں ہو گی۔ 8: ایک شخص نے ٹھیکے پر رقبہ لیا اور اسے نصاب کے قدر غلہ حاصل ہو گیا تو وہ اپنے حصے کی زکاۃ ادا کرے گا۔ 9: ایک شخص پھل دار درخت یا کسی کھیت کا ہبہ،خرید یا وراثت کے ذریعے سے مالک بن گیا،اگر وہ پھل یا غلہ کے مکمل اپنی حالت پر آنے سے پہلے مالک بنا ہے توزکاۃ وہی دے گا،ورنہ اس کا فروخت کرنے والا یا ہبہ کرنے والا ہی زکاۃ ادا کرے گا۔ 10: جس پر اتنا قرض ہے جو اس کے تمام مال کو محیط ہے یا اسے نصاب سے کم کردیتا ہے تو اس پرزکاۃ نہیں ہے۔[1] زکاۃ کے مصارف کا بیان: زکاۃ کے آٹھ مصرف ہیں،جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں ذکر کیے ہیں۔ارشاد ہے:﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾ ’’صدقات،فقراء،مساکین،اس پر کام کرنے والے،جن کے دلوں کی تالیف مطلوب ہو،قیدی آزاد کرانے میں،مقروض لوگوں کے لیے،اللہ کے راستہ میں اور مسافروں کے لیے ہیں،یہ اللہ کی طرف سے فریضہ ہے اور اللہ جاننے والا،حکمت والا ہے۔‘‘[2] ٭ زکاۃ کے مصارف کی وضاحت: 1: فقراء::اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس اتنا مال نہیں ٭ بضم تاء،ایک قسم کی نبات ہے جس کا بیج کڑوا ہوتا ہے اور پانی میں بھگو کر استعمال کیاجاتا ہے۔(المنجد،اردو)
Flag Counter