Maktaba Wahhabi

281 - 692
انسانوں کو مسابقت اور ایک دوسرے کو رغبت دلانے کی دعوت دی ہے،جس میں ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر اس مقصد کو پانے کی سعی کرتا ہے۔ارشادِ ربانی ہے: ﴿سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ﴾ ’’اپنے رب کی بخشش کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو اور اس جنت کی طرف بھی جس کی چوڑائی آسمان و زمین کی طرح ہے۔‘‘[1] نیز فرمایا:﴿وَفِي ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ﴾’’اور(نجات کے)شائقین اس میں رغبت کریں۔‘‘[2] مسلمان بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرتا اور نہ عمل ومحنت سے کنارہ کش ہوتا ہے۔اسے تو قضائے الٰہی کا یقین ہے،وہ تقدیر کو مانتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ جو تکلیف اسے پہنچی،وہ ہٹ نہیں سکتی تھی اور جو ہٹ گئی ہے،وہ پہنچ نہیں سکتی تھی۔اچھے عمل کو وہ کیوں ترک کرے۔جبکہ وہ یہ قرآنی آواز سن رہا ہے:﴿وَمَا يَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَن يُكْفَرُوهُ﴾ ’’اور جو یہ اچھے کام کرتے ہیں،اس کی ہرگز ناقدری نہیں کی جائے گی۔‘‘[3] نیز ارشاد ہے:﴿وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللّٰهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا﴾ ’’اور جو نیک عمل تم اپنے لیے آگے بھیج رہے ہو،اسے اللہ کے ہاں بہتر اور ثواب میں بہت بڑا پاؤ گے۔‘‘[4] سستی و کاہلی کے مظاہر: ٭ کاہل آدمی نماز کی اذان سن کر سو جاتا ہے یا باتوں میں لگا رہتا ہے یا کسی اور کام میں مشغول رہتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ نماز کا وقت ختم ہونے کو ہے تو اٹھ کر آخر میں نماز پڑھتا ہے۔ ٭ ضروری کام ترک کر کے غیر ضروری تفریح میں مشغول رہے یا دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں لگا رہے یا بازاروں میں آوارہ گردی کرتا رہے،یہ بھی سستی اور کاہلی کی وجہ سے ہے۔ سستی و کاہلی کے نقصان: ایسا انسان دنیا و آخرت کے مفید کام نہیں کرتا،مثلًا:علم حاصل کرنا،زمین کاشت کرنا،رہائشی مکانات وغیرہ کی تعمیر اور عذر یہ تراشتا ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے میں کام نہیں کر سکتا یا یہ کام کرنے کی میرے اندر استعداد نہیں ہے یا میرے پاس اس کام کے کرنے کا وقت ہی نہیں ہے۔اسی طرح وہ نیکی اور خیرات کے مواقع حاصل ہونے کے باوجود ان سے استفادہ نہیں کرتا۔حج کرنے کی فرصت اور قدرت ہے مگر حج نہیں کرتا،سامنے بے نوا ضرورت مند موجود ہیں مگر ان کی حاجت برآری نہیں کرتا،رمضان المبارک کا مہینہ رحمت بن
Flag Counter