Maktaba Wahhabi

318 - 692
’’جب وہ(امام)قراء ت کرے تو تم خاموش رہو۔‘‘[1] سورت فاتحہ کے علاوہ قراء ت کے بارے میں ہے۔ 5: رکوع کرنا اور رکوع سے سر اٹھانا:اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو جس نے نماز درست نہیں پڑھی تھی،فرمایا تھا: ((ثُمَّ ارْکَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ رَاکِعًا،ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَعْتَدِلَ قَائِمًا))’’رکوع اطمینان کے ساتھ کر،پھر سر اٹھا اور سیدھا کھڑا ہو جا۔‘‘[2] 6: سجدہ کرنا اور سجدے سے سر اٹھانا:اس لیے کہ رسول اللہ نے نماز درست نہ پڑھنے والے کو فرمایا تھا:((ثُمَّ اسْجُدْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا،ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ جَالِسًا)) ’’پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کر اور سر اٹھا اور اطمینان کے ساتھ بیٹھ جا۔‘‘[3] اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا﴾’’اے ایمان والو!رکوع کرو اور سجدہ کرو۔‘‘[4] 7: رکوع،سجدہ،قیام اور جلسہ میں اطمینان کو ملحوظ رکھنا:جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں ان مواقع پر’مسئُ الصَّلاۃ‘(درست نماز نہ پڑھنے والے)کے لیے ’حَتّٰی تَطْمَئِنَّ‘ کا حکم ہے کہ اطمینان سے پڑھ۔اطمینان کی حقیقت یہ ہے کہ رکوع،قیام،سجدہ اور جلسہ میں اعضاء کے استقرار کے بعد اتنی دیر ٹھہرے کہ کم از کم ایک بار ’سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیمِ‘ کہہ لے۔اس سے زائد ٹھہرنا مسنون ہے۔ 8: سلام اور سلام کے لیے بیٹھنا:اس لیے کہ نمازی سلام کہے بغیر نماز سے فارغ نہیں ہو سکتا،نیز سلام بیٹھے بیٹھے ہی کہے گا،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’وَتَحْلِیلُھَا التَّسْلِیمُ‘ ’’اور نماز کی ’’تحلیل‘‘ سلام ہے۔‘‘[5] 9: نماز کے ارکان میں ترتیب کو ملحوظ رکھنا:تکبیر تحریمہ سے پہلے نمازی سورئہ فاتحہ نہیں پڑھ سکتا اور نہ رکوع سے پہلے سجدہ کر سکتا ہے،اس لیے کہ نماز کی کیفیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اسی کی تعلیم دی ہے،چنانچہ آپ کا فرمان ہے: صَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُونِي أُصَلِّي‘ ’’اس طرح نماز پڑھو،جس طرح تم نے مجھے پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘[6] لہٰذا نماز میں کوئی مقدم رکن،مؤخر نہیں کیا جاسکتا اور نہ مؤخر کو مقدم کرنا جائز ہے،ورنہ نماز باطل ہو جائے گی۔ ٭نماز کی سنتیں: نماز میں سنتیں دو طرح کی ہیں،مؤکدہ جو واجب کے حکم میں ہیں اور غیر مؤکدہ جو مستحب کے درجہ میں ہیں۔
Flag Counter