Maktaba Wahhabi

166 - 692
((أُمَّکَ قَالَ:قُلْتُ:ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:أُمَّکَ قَالَ:ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:أُمَّکَ قَالَ:قُلْتُ:ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:أَبَاکَ،ثُمَّ الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ)) ’’اپنی ماں کے ساتھ،عرض کی:پھر کس کے ساتھ،فرمایا:اپنی ماں کے ساتھ،عرض کیا:پھر کس سے،فرمایا:اپنی ماں کے ساتھ،عرض کیا:پھر کس سے،فرمایا:اپنے باپ کے ساتھ،پھر قریب ترین اور پھر قریب تر رشتے دار کے ساتھ(اچھا سلوک کرو۔)‘‘ [1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے اعمال کا سوال ہوا جو بہشت میں داخل کردیں اور جہنم سے دور کردیں۔ تو آپ نے فرمایا:’تَعْبُدُ اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا،وَ تُقِیمُ الصَّلاۃَ،وَ تُؤْتِي الزَّکَاۃَ،وَ تَصِلُ الرَّحِمَ‘ ’’اللہ کی عبادت کر،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنا،نماز قائم کر،زکاۃدے اور صلہ رحمی کر۔‘‘ [2] خالہ کے بارے میں فرمایا:’اَلْخَالَۃُ بِمَنْزِلَۃِ الْأُمِّ‘ ’’خالہ ماں کے درجے میں ہے۔‘‘ [3] اور ایک جگہ فرمایا:’اَلصَّدَقَۃُ عَلَی الْمِسْکِینِ صَدَقَۃٌ،وَ ہِيَ عَلٰی ذِي الرَّحِمِ ثِنْتَانِ صَدَقَۃٌ وَّ صِلَۃٌ‘ ’’مسکین کو خیرات دینا(صرف)صدقہ ہے اور رشتہ دار کو دینا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔‘‘ [4] اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کا سوال کیا،جو کہ مشرکہ تھی اور مکہ سے انھیں ملنے آئی تھی تو آپ نے جواب میں فرمایا:’نَعَمْ،صِلِي أُمَّکِ‘ ’’ہاں،اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کر۔‘‘ [5] پڑوسیوں کے حقوق: ہمسایہ کے حقوق و آداب میں ہر مسلمان پر لازم ہے کہ ان کی ادائیگی میں پوری کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ﴾ ’’اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور رشتہ داروں،یتیموں،مساکین اور قرابت دار ہمسایہ اور غیر قرابت دار ہمسایہ(سب کے حقوق و آداب کی ادائیگی کرو۔)‘‘ [6]
Flag Counter