Maktaba Wahhabi

566 - 692
’’تم ہرگز اچھائی نہیں حاصل کر سکتے جب تک کہ تم اپنی پسندیدہ چیزیں خرچ نہ کرو۔‘‘[1] اور فرمایا:﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ﴾’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو۔‘‘[2] مزید ارشاد عالی ہے:﴿وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ﴾’’اور محبت کے باوجود مال رشتہ داروں کو دے۔‘‘[3] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’تَھَادُوا تَحَابُّوا‘’’ایک دوسرے کو تحفے دو،اس سے باہم محبت بڑھے گی۔‘‘[4] اور فرمایا:’اَلْعَائِدُ فِي ھِبَتِہِ کَالْعَائِدِ فِي قَیْئِہِ‘ ’’ہبہ‘‘ دے کر واپس لینے والا،اس کتے کی مانند ہے جو اپنی قے چاٹ لیتا ہے۔‘‘[5] اور عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:’کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَقْبَلُ الْھَدِیَّۃَ وَیُثِیبُ عَلَیْھَا‘ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول کرتے تھے اور اس پر بدلہ(بھی)دیتے تھے۔‘‘[6] نیز ارشاد فرمایا:’مَنْ سَرَّہُ أَنْ یُّبْسَطَ لَہُ فِي رِزْقِہِ،وَأَنْ یُّنْسَأَلَہُ فِي أَثَرِہِ فَلْیَصِلْ رَحِمَہُ‘ ’’جس کو یہ بات اچھی لگے کہ اس کی روزی میں فراخی ہو اور یہ کہ دیر تک اس کا تذکرہ رہے،اسے چاہیے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔‘‘[7] ٭ ہبہ کی شرائط: 1:سائل کے سوال کے نتیجہ میں ’’ہبہ‘‘ کرنے والے کا سوال قبول کرنا اور اپنی رضامندی سے چیز دینا۔ 2:جسے ’’ہبہ‘‘ دیا جا رہا ہے،اس کا اپنی زبان سے یہ کہہ کر قبول کرنا کہ ’میں اس ’’ہبہ‘‘ کو قبول کرتا ہوں یا صرف اس چیز کو اپنے قبضہ میں لے لینا،اس لیے کہ اگر کسی نے ’’ہبہ‘‘ کیا ہے اور’ ’جسے ہبہ کی گئی ہے‘‘ اس نے اسے اپنے قبضہ میں نہیں لیا،اس دوران میں ’’واہب‘‘(ہبہ کرنے والا)فوت ہو گیا تو اس چیز میں ورثاء کا حق در آئے گا اور جس شخص کے لیے چیز ہبہ کی گئی ہے اس کا اب اس میں کوئی حق نہیں رہے گا،اس لیے کہ’ ’ہبہ‘‘ کی شرط’ ’قبول‘‘ ہے اگر ہبہ کیا گیا شخص اسے قبول کر لے تو اسے چاہیے کہ جس طرح بھی ممکن ہو فوری قبضہ کرے۔ ٭ ’’ہبہ‘‘ کے احکام: 1:اگر اولاد میں سے کسی کو عطیہ دے دیا ہے تو باقی اولاد کو بھی اسی طرح کا عطیہ دینا مستحب ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’اِتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْدِلُوا فِي أَوْلَادِکُمْ‘
Flag Counter