Maktaba Wahhabi

615 - 692
((دَخَلَتِ امْرَأَۃٌ النَّارَ فِي ھِرَّۃٍ رَبَطَتْھَا،فَلَا ھِيَ أَطْعَمَتْھَا وَلَا ھِيَ أَرْسَلَتْھَا تَأْکُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتّٰی مَاتَتْ ھَزْلًا)) ’’ایک عورت بلی کی و جہ سے جہنم میں داخل ہوئی۔اس نے اسے باندھے رکھا۔نہ اسے کھانا کھلایا اور نہ اسے چھوڑا تاکہ وہ زمینی جانور کھا کر زندہ رہتی حتی کہ وہ بھوکی مر گئی۔‘‘[1] حضانت یعنی نابالغ کی تربیت کا بیان ٭ حضانت کی تعریف: بلوغت کی عمر کو پہنچنے تک چھوٹے بچے کو اپنے پاس رکھنا اور اس کی تربیت کرنا ’’حضانت‘‘ کہلاتا ہے۔ ٭ حضانت کا حکم: چھوٹے بچے کے جسم،عقل اور دین کی حفاظت کے لیے حضانت لازم ہے۔ حضانت کس پر واجب ہے؟ اس کی ذمہ داری ماں باپ پر ہے اگر وہ موجود نہیں ہیں تو رشتہ داروں میں سے جو زیادہ قریب ہے،اس کی ذمہ داری ہے،اگر کوئی قرابت دار بھی نہیں ہے تو یہ حکومت یا عام مسلمانوں کا فریضہ ہے۔ حضانت میں کس کا حق زیادہ ہے؟ بچے کے ماں باپ کے مابین طلاق یا وفات کی وجہ سے جدائی ہو گئی ہو تو ماں کا حق تربیت سب سے مقدم ہے،جب تک وہ نکاح نہیں کرتی۔ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی کہ میرا بچہ اس کے باپ نے چھین لیا ہے تو آپ نے فرمایا: ’أَنْتِ أَحَقُّ بِہِ مَالَمْ تَنْکِحِي‘ ’’جب تک تو نکاح نہ کرے،اس کی زیادہ حق دار تو ہے۔‘‘[2] اگر ماں موجود نہیں تو اس کے بعد نانی حق دار ہے۔اگر وہ بھی نہیں تو خالہ،اس لیے کہ نانی ماں سمجھی جاتی ہے اور خالہ ماں کے مرتبے میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’اَلْخَالَۃُ بِمَنْزِلَۃِ الْأُمِّ‘ ’’خالہ ماں کی جگہ پر ہے۔‘‘[3] اگر یہ بھی نہیں ہیں تو دادی تربیت کرے گی،وہ بھی نہیں تو بہن اور اگر یہ بھی نہیں ہے تو پھوپھی اور اگر ان میں سے کوئی تربیت کے لیے موجود نہیں ہے تو بچے کی ’’حضانت‘‘ باپ کی طرف منتقل ہو گی،پھر دادا،پھر بھائی،پھر بھائی کا بیٹا اور پھر چچا اور اسی طرح قریب ترین عصبہ اور حقیقی بھائی پدری بھائی(جو صرف باپ کی طرف سے ہو)پر ’’حق فائق‘‘
Flag Counter