Maktaba Wahhabi

265 - 692
یعنی جو صدقہ ہوچکا ہے حقیقت میں تو وہی باقی ہے۔(جس کا اجر قیامت کے دن ملے گا)ایک جگہ ارشاد فرمایا: ’مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِّنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ،وَلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ،وَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِینِہِ،ثُمَّ یُرَبِّیھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّي أَحَدُکُمْ فَلُوَّہُ حَتّٰی تَکُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ‘ ’’جس نے حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر خیرات کی۔اور اللہ حلال ہی قبول کرتا ہے۔اسے اللہ اپنے دائیں ہاتھ سے قبول کرتا ہے اور پھر خیرات کرنے والے کے لیے بڑھاتا رہتا ہے۔جس طرح کہ تم میں سے کوئی اپنے بچھیرے کو پالتا ہے۔یہاں تک کہ وہ(صدقہ یعنی اس کا اجر)پہاڑ جتنا ہو جاتا ہے۔‘‘[1] سخاوت کے مظاہر: ٭ سائل کو دینے والا احسان اور ایذا رسانی کے بغیر دیتا ہے۔ ٭ دینے والا سائل کو دیکھ کر فرحت محسوس کرتا ہے اور عطیہ دے کر خوش ہوتا ہے۔ ٭ فضول خرچی اور کنجوسی دونوں سے احتراز کرتا ہے اور خرچ کرتا ہے۔ ٭ جس کے پاس زیادہ ہے وہ زیادہ دیتا ہے اور جس کے پاس تھوڑا ہے وہ کم دیتا ہے مگر دل کی خوشی،انبساط اور اچھے انداز سے دیتا ہے۔ سخاوت کی چند مثالیں: 1: مروی ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک لاکھ(100,00,0)درہم بھیجے،ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں خیرات کرنا شروع کر دیا اور شام کو اپنی نوکرانی سے فرمانے لگیں:میرے لیے افطاری لاؤ۔وہ روٹی اور زیتون لائی اور کہنے لگی:اس مال میں سے جو آج آپ نے خرچ کیا ہے،ایک درہم کا گوشت ہی خرید لیتیں۔تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:اگر آپ یاد دلاتیں تو خرید لیتے۔[2] 2: مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے خالد بن عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہ سے اس کا گھر،جو مکہ کے بازار میں تھا،ستر ہزار درہم میں خرید لیا،رات کے وقت عبداللہ نے خالد کے اہل کے رونے کی آواز سنی۔سبب پوچھا تو معلوم ہوا کہ مکان کی فروخت پر افسوس ہو رہا ہے۔تو اس پر عبداللہ بن عامر نے اپنے غلام کے ذریعے کہلا بھیجا:مکان بھی تم رکھو اور دیے گئے درہم بھی تمھارے ہو گئے۔[3] 3: بیان کیا جاتا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے مرض الموت میں وصیت کی کہ مجھے فلاں شخص غسل دے۔اسے غسل دینے کے لیے بلایا گیا تو اس نے کہا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی وہ کتاب دکھاؤ،جس پر وہ اپنی ضروری یاد داشتیں لکھا کرتے تھے۔وہ اسے دی گئی،دیکھا تو امام شافعی رحمہ اللہ کے قرضہ جات لکھے تھے،جو انھوں نے دینے تھے۔اس آدمی نے وہ لکھ لیے اور
Flag Counter