Maktaba Wahhabi

517 - 692
شریک سے نقصان کا ازالہ۔ اقالہ کا بیان ٭ اقالہ کی تعریف: اگر ’’مشتری‘‘یا ’’بائع‘‘یا دونوں بیع پر نادم ہوں تو قیمت اور خریدی ہوئی چیز ایک دوسرے کو واپس کر کے سودا منسوخ کرنا ’’اقالہ‘‘کہلاتا ہے۔ ٭ اقالہ کا حکم: اگر ایک فریق ’’اقالہ‘‘کا مطالبہ کرے تو ’’بیع‘‘ واپس کرنا مستحب اور قابل اجر ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا بَیْعَتَہُ،أَقَالَہُ اللّٰہُ عَثْرَتَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘ ’’جو مسلمان کی ’’بیع‘‘اس کے مطالبے پرواپس کر دے،اللہ قیامت کے دن اس کی لغزشیں معاف کر دے گا۔‘‘[1] ٭ اقالہ کے احکام: 1: کیا ’’اقالہ‘‘پہلی بیع کو فسخ کرنا ہے یا یہ جدید بیع شمار ہوتی ہے۔اس میں فقہاء کا اختلاف ہے۔امام احمد،امام شافعی اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک ’’اقالہ‘‘سے پہلی بیع منسوخ ہوتی ہے جبکہ امام مالک رحمہ اللہ اسے ایک نیا سودا قرار دیتے ہیں۔ 2: اگر فروخت شدہ چیز کا کچھ حصہ تلف ہو جائے تو باقی چیز میں ’’اقالہ‘‘جائز ہے۔ 3: ’’اقالہ‘‘کے وقت قیمت میں کمی بیشی نہیں ہو گی،ورنہ’ ’اقالہ‘‘نہیں رہے گابلکہ یہ نئی ’’بیع‘‘ہو جائے گی اور اس پر جدید ’’بیع‘‘کے احکام جاری ہوں گے،یعنی بیع اگر مشترکہ جائیداد تھی تو دوسرے شریک کے لیے’ ’شفعہ‘‘ ثابت ہو جائے گا،اور اگر بیع طعام تھا تو دونوں طرف سے قبضہ ضروری ہو گا اور’ ’بیع‘‘کے الفاظ وغیرہ کی پابندی کی جائے گی۔ باب:4 جملہ عقود و معاہدات شراکت کے احکام: ٭ شراکت کی دلیل: اللہ کے اس فرمان کی رو سے کسی چیز میں اشتراک کرنا ثابت ہے۔﴿فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ﴾’’تو وہ تہائی میں شریک ہیں۔‘‘[2] اور فرمایا:﴿وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ﴾’’اور یقینا بہت سے حصہ دار ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں۔‘‘[3] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’یَقُولُ اللّٰہُ:أَنَا ثَالِثُ الشَّرِیکَیْنِ مَالَمْ یَخُنْ أَحَدُھُمَا صَاحِبَہُ‘
Flag Counter