Maktaba Wahhabi

154 - 692
﴿وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا﴾ ’’اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ اسے شریک بنائے،جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں ہے تو تو ان کا کہا نہ مان اور دنیا(داری)میں اچھے انداز سے ان کے ساتھ نباہ کر۔‘‘ [1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’إِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِي الْمَعْرُوفِ‘ ’’اطاعت تو صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔‘‘ [2] مزید فرمایا:((لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ))’’خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔‘‘[3] 2: ان کی عزت و توقیر ملحوظ رکھے،قول اور فعل میں ادب سے پیش آئے،انھیں ڈانٹے نہیں،ان کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرے،ان کے آگے نہ چلے،ان پر اپنی بیوی اور اولاد کو فوقیت نہ دے،انھیں نام لے کر نہ پکارے بلکہ ابا جان اورامی جان جیسے الفاظ کے ساتھ احترام سے بلائے اور اگر سفر اختیار کرنا ہو تو ان کی اجازت اور رضامندی سے کرے۔ 3: جس طرح بھی ممکن ہو ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے،انھیں کھانا کھلائے،پہننے کو کپڑے دے،بیمار ہو جائیں توعلاج کرائے،ان سے ہر طرح کی تکالیف دور کرنے کی کوشش کرے بلکہ اپنے آپ کو ان پر قربان کر دے۔ 4: جو رشتے ان کی بنیاد پر بنے ہیں،ان سے تعلقات درست رکھے،والدین کے لیے دعا و استغفار کرتا رہے،ان کے وعدے پورے کرے اور ان کے دوستوں کے ساتھ احترام سے پیش آئے۔ اولاد کے حقوق: اولاد کے بھی اپنے والد پر حقوق ہیں جن کی ادائیگی اس کے لیے ضروری ہے اور کچھ آداب ایسے ہیں کہ والد پر لازم ہے کہ وہ انھیں اولاد کے لیے ملحوظ رکھے،مثلاً:ان کی والدہ کا انتخاب اچھا کرے،بچے کا بہتر نام رکھے،ساتویں دن عقیقہ اور ختنہ کرے،اپنی اولاد کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آئے،ان کے لیے خرچ کرے،اچھی تربیت اور تادیب و تعلیم کا انتظام کرے،انھیں اسلامی احکام وفرائض کی ادائیگی اور سنن و آداب کے ملحوظ رکھنے کی مشق کرائے اور جب بالغ ہو جائیں تو ان کا نکاح کر دے اور پھر انھیں اختیار دے دے،چاہے باپ کے ساتھ رہیں،چاہے الگ سے اپنا گھر بسائیں۔کتاب و سنت کے مندرجہ ذیل دلائل ان احکام کی وضاحت کرتے ہیں:اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾ ’’اور مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں(یہ حکم اس کے لیے ہے)جو پوری مدت دودھ پلانا چاہے اور باپ پر،ان(ماؤں)کو دستور کے مطابق روٹی اور کپڑا دینا ہے۔‘‘[4] نیز فرمایا:
Flag Counter