Maktaba Wahhabi

503 - 692
والا بازار میں سامان لائے تو شہری کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس کے لیے فروخت کرے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((لَا یَبِعْ حَاضِرٌ لِّبَادٍ،دَعُوا النَّاسَ یَرْزُقِ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ مِنْ بَعْضٍ)) ’’شہری صحرائی کے لیے نہ بیچے،لوگوں کو چھوڑ دو،اللہ ان کو ایک دوسرے کے ذریعے سے روزی دیتاہے۔‘‘[1] 12 تجارتی قافلوں کے منڈی پہنچنے سے پہلے راستے ہی میں ان سے مال خرید لینا: جب ایک شخص سنتا ہے کہ ایک قافلہ سامان لے کر شہر آ رہا ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ قافلے والوں سے راستے میں مل کر شہر سے باہر ہی وہ سامان ان سے خرید لے،پھر شہر میں لا کر اپنی مرضی کے مطابق بیچے،اس لیے کہ اس میں قافلے کے تاجروں کو نقصان اورگھاٹے کا اندیشہ ہے اور ساتھ ہی شہر کے تاجروں اور صارفین کا بھی نقصان ہے،اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’لَا تَلَقَّوُا الرُّکْبَانَ وَلَا یَبِعْ حَاضِرٌ لِّبَادٍ‘ ’’تجارتی قافلے کو(مارکیٹ سے باہر)نہ ملو اور کوئی شہری دیہاتی(صحرائی)کے لیے(کوئی مال)فروخت نہ کرے۔‘‘[2] 13 دودھ روکے ہوئے جانوروں کی تجارت: کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ بکری،گائے یا اونٹنی کا دودھ چند دن تک ان کے تھنوں میں اس مقصد کے لیے روکے رکھے کہ وہ دودھ سے بھرے ہوئے معلوم ہوں اور خریدار ان کی زیادہ قیمت دے،اس لیے کہ یہ دھوکا دہی کا ایک انداز ہے(کیونکہ وہ اسے زیادہ دودھ والی سمجھے گا،حالانکہ درحقیقت وہ ایسی نہیں ہوگی)اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((لَا تُصَرُّوا الإِْبِلَ وَالْغَنَمَ،فَمَنِ ابْتَاعَھَا بَعْدَ ذٰلِکَ فَھُوَ بِخَیْرِ النَّظْرَینِ بَعْدَ أَنْ یَّحْلِبَھَا،فَإِنْ رَّضِیَھَا أَمْسَکَھَا،إِنْ سَخِطَھَا رَدَّھَا وَصَاعًا مِّنْ تَمْرٍ)) ’’اونٹنی اور بکری کا دودھ نہ روکو،اگر کوئی ایسا جانور خرید لیتا ہے تو دودھ دوہنے کے بعد اسے اختیار ہے کہ اپنے پاس رکھے اور اگر چاہے تو واپس کر دے اور ایک صاع کھجور(یا غلہ)بھی اس کے ساتھ دے۔‘‘[3] 14 جمعۃ المبارک کی دوسری اذان کے بعد تجارت کرنا: مسلمان جمعے کی اذان(اذان محمدی جس کے بعد امام منبر پر کھڑا ہو کر خطبہ دیتا ہے)کے بعد خرید و فروخت نہیں کر سکتا،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ﴾
Flag Counter