Maktaba Wahhabi

408 - 692
نیز عمر رضی اللہ عنہ نے صدقہ وصول کرنے والے کو أَکُولَہ،الرُّبیَّ مَاخِضْ اور فَحلُ الْغَنم لینے سے منع کر دیا تھا۔[1] پھلوں اور غلہ جات کی زکاۃ: غلہ اور پھلوں میں شرط یہ ہے کہ پھل اور دانہ پختگی کو پہنچ جائیں،یعنی پھل زرد یا سرخ ہوجائے اور دانہ نکالا جاسکے۔اسی طرح انگور اور زیتون بھی جب عمدہ اور قابل استعمال ہو جائیں،اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ﴾’’اور اس کی کٹائی کے دن اس کا حق دے دو۔‘‘[2] اس کا نصاب پانچ وسق ہے۔ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور ایک صاع چار مد کا،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’لَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ صَدَقَۃٌ‘’’پانچ وسق سے کم میں صدقہ نہیں ہے۔‘‘ [3] اگر کھیت یا باغ کو چشمے یا دریا اور نہر کا پانی سیراب کرتا ہو تو اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے،یعنی پانچ وسق میں نصف وسق۔لیکن اگر پانی لگانے میں مشقت ہے یا خرچ آتا ہے،یعنی کنویں سے پلایا گیا ہے یا جانوروں کے ذریعے تو اس میں بیسواں حصہ ہے،یعنی پانچ وسق میں چوتھائی وسق۔اگر پیداوار کم و بیش ہے تو اسی حساب سے ادائیگی کی جائے،خواہ کم ہو یا زیادہ،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’فِیمَا سَقَتِ السَّمَائُ وَالْعُیُونُ أَوْکَانَ عَثَرِیًّا الْعُشْرُ،وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ‘ ’’بارش اور چشمے سے سیراب شدہ اور عثری(ایسا پودا یا درخت جو جڑ کے ذریعے نیچے سے پانی حاصل کرے)میں دسواں حصہ ہے۔اور جسے کھینچ کر پانی دیا گیا ہو اس میں بیسواں حصہ ہے۔‘‘ [4] تنبیہات: 1: ایک شخص نے ایک مرتبہ آلات کے ذریعے سے پانی دیا اور دوسری مرتبہ اس کے بغیر(بارش یا دریا سے)تو اس میں دسواں حصہ کے تین ربع(تین چوتھائی)ہیں۔علماء یوں ہی کہتے ہیں اور علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ ہمیں اس میں کوئی اختلاف معلوم نہیں ہے۔ 2: کھجور کی تمام اقسام اکٹھی کر کے نصاب پورا ہو جائے تو اوسط قسم سے زکاۃ دے دی جائے۔نہ زیادہ عمدہ سے ادائیگی کی جائے اور نہ ہی ردی سے۔ 3: گندم،جو اور سلت(یہ جو کی ایک قسم ہے جس پر چھلکا نہیں ہوتا)کوزکاۃ میں ایک نصاب بنایا جائے۔ان کا مجموعہ نصاب زکاۃ تک پہنچ جائے تو جو زیادہ ہے اس میں سے زکاۃ نکالی جائے۔
Flag Counter