Maktaba Wahhabi

557 - 692
((مَنْ أَدْرَکَ مَالَہُ بِعَیْنِہِ عِنْدَ رَجُلٍ أَوْ إِنْسَانٍ قَدْ أَفْلَسَ فَھُوَ أَحَقُّ بِہِ)) ’’جو کوئی کسی ’’مفلس‘‘ کے پاس اپنا سامان بعینہ پا لیتا ہے تو وہی اس کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘[1] البتہ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ صاحب سامان اس کی قیمت میں سے کچھ بھی وصول نہ کر چکا ہو،ورنہ وہ سب قرض خواہوں کے برابر حصہ دار ہے۔ 4: جس شخص کے بارے میں حاکم وقت کے ہاں ثابت ہو جائے کہ اس کے پاس کوئی مال نہیں ہے جسے فروخت کر کے قرض ادا کیا جائے تو اس سے قرض کا مطالبہ اور اس کا پیچھا کرنا جائز نہیں ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ﴾’’مقروض اگر تنگ دست ہے تو آسانی تک مہلت دینی چاہیے۔‘‘[2] اور اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقروض صحابی کے قرض خواہوں کو فرمایا تھا:((خُذُوا مَا وَجَدْتُّمْ،وَلَیْسَ لَکُمْ إِلَّا ذٰلِکَ)) ’’تم جو پاؤ لے لو اور اس کے علاوہ تمھارے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘[3] 5: مال تقسیم ہو جانے کے بعد ایک اور قرض خواہ ظاہر ہو گیا جس کو مقروض پر پابندی اور اس کے مال کے فروخت ہونے کا علم نہیں تھا تو وہ دوسرے قرض خواہوں سے حصۂ رسد(اپنا حصہ)وصول کرے گا۔ 6: ہاں،جسے پابندی کا علم ہے اور اس کے بعد اس نے مقروض سے کچھ لین دین کیا تو وہ ان قرض خواہوں کے حصے میں شریک نہیں ہو گا،جن کی وجہ سے اس پر پابندی لگائی گئی تھی بلکہ مذکورہ شخص کا قرض بدستور ’’مفلس‘‘ کے ذمے رہے گا جسے وہ آسانی میسر آنے پر ادا کرے گا۔ ٭ مفلس پر پابندی کا تحریری نمونہ: بسم اللہ اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد:’’فلاں عدالت کا قاضی اقرار کرتا ہے کہ اس نے فلاں شخص پر شرعی انداز سے درست پابندی لگائی ہے اور شرعی قرضہ جات اور دیگر واجبات کی وجہ سے اس کو منع کر دیا ہے کہ وہ اپنے مال میں کسی طرح کا تصرف کرے۔اس نے اتنا قرض دینا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ فلاں کا قرض مبلغ اتنا ہے،جس کا اثبات فلاں دستاویز سے ہوا ہے۔اور اس پر فلاں تاریخ ثبت ہے اور فلاں کا قرض اتنا ہے اور ان قرض خواہوں نے اپنے اپنے قرض عدالت میں معتبر دستاویزات کے ذریعے سے ثابت کر دیے ہیں اور ہر ایک نے اس پر حلفیہ بیان دیا ہے اور دلائل سے عدالت کے روبرو واضح ہو گیا ہے کہ مذکورہ مقروض تنگ دست ہے اور اس کے
Flag Counter