Maktaba Wahhabi

100 - 692
’’اے ہمارے پالنے والے!ہمارا(یہ عمل)قبول فرما۔بے شک تو ہی سننے والا(اور)جاننے والا ہے۔‘‘[1] اور آدم و حوا علیہما السلام نے عرض کی:﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ ’’اے ہمارے رب!ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘[2] عقلی دلائل: 1: رب تعالیٰ مخلوق سے بے نیاز،اور بندہ محتاج ہے۔اس کا تقاضا یہ ہے کہ محتاج بندہ،کامیابی حاصل کرنے اور خطرات سے بچنے کے لیے(جائز اور مشروع)سبب تلاش کرے۔ 2: بندہ افعال واقوال میں اللہ رب العزت کی پسند وناپسند سے واقف نہیں،یہی بات اس چیز کی متقاضی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ شریعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان واضح اقوالِ حسنہ واعمالِ صالحہ،جن کے کرنے اور برے اقوال وافعال،جن سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے،کو وسیلہ بنایا جائے۔ 3: کسی بلند مرتبے والے انسان کا مرتبہ و مقام اُسے اس کی ذاتی محنت اور ہاتھوں کی کمائی سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی بخشش و عطا کا مظاہرہ ہوتا ہے۔یہی چیز اس بات کی متقاضی ہے کہ دعا میں اللہ تعالیٰ کے حضور اُسے وسیلہ نہ بنایا جائے۔اس لیے کہ کسی کا مرتبہ چاہے کتنا ہی بڑا ہو،وہ اللہ کے حضور کسی دوسرے شخص کی قربت کا ذریعہ نہیں بن سکتا،چہ جائیکہ اس کے مرتبہ ومقام کے ذریعے سے ایک عام فرد اللہ کا قرب اور وسیلہ حاصل کرے۔ہاں اگر ایک انسان اپنے اعضاء اپنی صلاحیتوں یا اپنے مال کے ذریعے سے کسی دوسرے انسان کے(علمی)مرتبہ و مقام کا باعث ہے اور اپنی محنت و کاوش سے اس کا عامل و فاعل ہے،یعنی اپنی محنت و کاوش سے اسے پڑھاتا رہا ہے تو اپنی اس محنت اور کوشش کو دعا میں واسطہ بنا سکتا ہے،اس لیے کہ یہ بھی اس کے اپنے کسب و عمل میں سے ہے،بشرطیکہ اس نے رضائے الٰہی کے لیے یہ عمل کیا ہو۔ باب:15 اولیاء الرحمن کی کرامات اور اولیاء الشیطان کی گمراہیاں اولیاء الرحمن: بندوں میں اللہ تعالیٰ کے ولی بھی ہیں جنھیں اللہ نے اپنی عبادت کے لیے چن لیا ہے۔ان سے وہ اپنی اطاعت کے کام کراتا ہے اور انھیں شرف،محبت اور کرامت سے نوازتا ہے،اللہ ان کا دوست ہے وہ ان سے محبت کرتا اور انھیں اپنے قریب کرتا ہے اور یہ لوگ اللہ کے ولی ہیں،یہ اس سے محبت کرتے اور اس کی تعظیم بجا لاتے ہیں،اس کے
Flag Counter