Maktaba Wahhabi

496 - 692
ایک بیع میں دو شرطیں(لگانا حلال ہے۔‘‘)[1] 2: ایسی شرط لگانا جس سے ’’بیع‘‘کا مقصد فوت ہو جائے،مثلاً:جانور بیچنے والا کہے ’’مشتری‘‘اسے آگے فروخت نہیں کر سکے گا یا زید کو ہبہ نہیں کرے گا یا عمر کو ہی ہبہ کرے گا یا یہ شرط لگاتا ہے کہ مجھے قرض دے یا فلاں چیز مجھے فروخت کر،تب میں یہ تجھے بیچتا ہوں،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا یَحِلُّ سَلَفٌ وَّبَیْعٌ،وَلَا شَرْطَانِ فِي بَیْعٍ،وَلَا رِبْحُ مَالَمْ یُضْمَنْ،وَلَا بَیْعُ مَالَیْسَ عِنْدَکَ)) ’’قرض اور بیع اور ایک بیع میں دو شرطیں حلال نہیں اور نہ ہی اس چیز کا نفع درست ہے جس کے نقصان کی ذمہ داری اپنے اوپر نہ لی گئی ہو اور نہ ہی اس چیز کی بیع(حلال ہے)جو تیرے پاس نہیں ہے۔‘‘[2] 3: ایسی شرط لگانا جو باطل اور لغو ہو،پھر بھی بیع(از روئے شریعت)صحیح قرار پائے(ایسی شرط کا اعتبار نہیں کیا جائے گا)،مثلاً:بائع یہ شرط لگاتا ہے کہ اسے ’’مشتری‘‘کو(سودا)بیچتے وقت خسارہ نہیں ہو گا یا غلام بیچنے والا کہے:اس کی ولاء میرے لیے ہے٭ تو یہ دونوں شرطیں باطل ہیں،جبکہ’’بیع‘‘صحیح ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَّیْسَ فِي کِتَابِ اللّٰہِ فَھُوَ بَاطِلٌ،وَإِنِ اشْتَرَطَ مِائَۃَ شَرْطٍ)) ’’جو ایسی شرط لگائے جو اللہ کی کتاب میں نہیں،وہ باطل ہے،چاہے سو شرطیں ہوں۔‘‘[3] بیع خیار کا حکم: بیع کے چند مسائل میں اختیار حاصل ہوتا ہے: 1: ’’بائع‘‘اور’ ’مشتری‘‘جب تک ’’مجلس بیع‘‘میں ہیں اور جدا نہیں ہوئے دونوں کو اختیار حاصل ہے کہ بیع کو پختہ کریں یا فسخ(منسوخ)کر دیں،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَالَمْ یَتَفَرَّقَا،فَإِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُورِکَ لَھُمَا فِي بَیْعِھِمَا،وَإِنْ کَذَبَا وَکَتَمَا مُحِقَتْ بَرَکَۃُ بَیْعِھِمَا)) ’’خرید و فروخت کرنے والے دونوں کو جدا ہونے سے پہلے تک(سودا فسخ کرنے کا)اختیار ہے،اگر وہ سچ کہیں ٭ حالانکہ غلام کی ولاء اس خریدار کو ملتی ہے جو اسے خرید کر آزاد کرتا ہے۔یاد رہے کہ ولاء ایک ایسا تعلق ہے جس کی بنیاد پر آزاد کردہ غلام کی میراث،اس کی وفات کے بعد اس کے دیگر وارثوں کے نہ ہونے کی صورت میں آزاد کرنے والے مالک کو ملتی ہے۔(ع،ر)
Flag Counter