Maktaba Wahhabi

110 - 692
پوشیدہ باتیں بتاتا اور خفیہ امور سے آگاہ کردیتا ہے،اور بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ اپنے ساتھی پر ہتھیار نہ چلنے دیا اور ایسے لوگ بھی پائے گئے ہیں جنھوں نے کسی بزرگ سے مدد طلب کی تو شیطان ان کے پاس اسی نیک انسان کی شکل و صورت میں آگیاجس سے شیاطین کا مقصد انھیں گمراہ کرنا،شرک کی طرف لانا اور معصیتِ الٰہی پر آمادہ کرنا ہوتا ہے۔اور بعض لوگوں کو شیاطین دور دراز علاقوں میں لے گئے یا اس کے پاس آدمیوں کو لے آئے،یا اسی طرح کے دیگر اعمال کر دکھائے جن کے کرنے پر شیاطین اور سرکش جن ہی قدرت رکھتے ہیں۔ یہ شیطانی احوال اس وقت حاصل ہوتے ہیں،جب انسان شروفساد کرتا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام کے انکار اور نافرمانی میں بدمست ہو جاتا ہے،یہاں تک کہ بالآخر اس میں ایمان،تقویٰ اور نیکی باقی نہیں رہتی۔ایسی صورت میں اس کی روح شیطانی ارواحِ خبیثہ کے ساتھ متحد ہو جاتی ہے۔پھر دونوں کے درمیان دوستی کے رشتے قائم ہو جاتے ہیں حتی کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے اور معلومات کا باہم تبادلہ کرتے رہتے ہیں۔اسی لیے قیامت کے دن انھیں کہا جائے گا:﴿يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ﴾ ’’اے جنوں کی جماعت!تم نے انسانوں سے بہت فائدہ حاصل کیا ہے۔‘‘[1] ان کے انسانی دوست کہیں گے:﴿رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ﴾ ’’اے ہمارے رب!ہم نے ایک دوسرے سے(بہت)فائدے حاصل کیے ہیں۔‘‘[2] البتہ ربانی اولیاء کی کرامتوں اور شیطانی اولیاء کے کرتبوں میں واضح تر فرق یہ ہے کہ اگر ’’خرقِ عادت‘‘ بات ایک ایماندار،پرہیز گار اور اللہ تعالیٰ کی شریعت پر خلوت و جلوت میں چلنے والے شخص کے ہاتھوں سرزد ہو تو یہ اللہ کی طرف سے اعزاز اور اس کی ہمت افزائی ہے اور اگر ایسا کام ایک خبیث،اللہ کے نافرمان اور کفر و فساد میں منہمک شخص کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو یہ استدراج(معصیت کے باوجود ڈھیل دینے)[3] کی قبیل سے ہے،یا پھر شیاطین کی کار فرمائی اور ان کی اپنے دوستوں کی غیبی مدد ہے۔(والعیاذ باللہ) باب:16 فریضۂ امر بالمعروف و نہی عن المنکر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر: ایک مسلمان کا ایمان ہے کہ اچھے کاموں کا پرچار کرنا اور برے کاموں سے
Flag Counter