Maktaba Wahhabi

277 - 692
اسے مشہور کر دے گا۔‘‘[1] نیز فرمان نبوی ہے:((إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَیْکُمُ الشِّرْکُ الْأَصْغَرُ،قَالُوا:وَمَا الشِّرْکُ الْأَصْغَرُ یَارَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ:اَلرِّیَائُ،یَقُولُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِذَا جُزِيَ النَّاسُ بِأَعْمَالِھِمْ:اِذْھَبُوا إِلَی الَّذِینَ کُنْتُمْ تُرَائُ ونَ فِي الدُّنْیَا فَانْظُرُوا ھَلْ تَجِدُونَ عِنْدَھُمْ جَزَائً؟)) ’’سب سے زیادہ خطرناک چیز جس کا میں تم پر خطرہ محسوس کرتا ہوں،چھوٹا شرک ہے۔‘‘لوگوں نے پوچھا:اے اللہ کے رسول!شرک اصغر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:’’وہ دکھاوا ہے۔اللہ عزوجل قیامت کے دن جب بندوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو فرمائیں گے:جن کو دکھلانے کے لیے تم نے عمل کیے تھے،ان کے پاس جاؤ،پھر دیکھو کیا وہاں تمھیں کوئی صلہ ملتا ہے۔‘‘[2] اور اصل میں ریا یہ ہے کہ بندہ اللہ عزوجل کی اطاعت اس غرض سے کرے کہ وہ لوگوں کے ہاں سرخرو ہو اور ان کے دلوں میں اس کی قدر ومنزلت ہو۔ ریا کے مظاہر: ٭ عمل کرنے والے کی تعریف ہو جائے تو وہ فرماں برداری کا عمل بڑھاتا چلا جائے اور اگرتعریف نہیں ہوئی یا تنقیص ہو گئی یا کسی نے اس عمل کی مذمت کر دی تو اسے چھوڑ دے یا کم کر دے۔ ٭ لوگوں کی معیت میں عمل کرے تو خوش وخرم اور اگر اکیلا ہو تو کاہل وسست ہوجائے۔ ٭ لوگوں کو دیکھا کر خیرات کرے اگر لوگ دیکھنے والے نہ ہوں تو وہ خیرات نہ کرے۔ ٭ حق اور نیکی کی جو بات بھی کہتا ہے یا اطاعت وفرماں برداری کا کوئی کام کرتا ہے تو اس میں اسے محض اللہ کی رضا مطلوب ومقصود نہیں ہے بلکہ اس میں انسانوں کی رضا اور خوشی کوشامل رکھتا ہے یا فقط انسانوں کی رضا کے لیے کام کرتا ہے۔اللہ کی رضا سرے سے اس کے ذہن میں آتی ہی نہیں۔ خود پسندی اور غرور: مومن خود پسندی اور غرور سے اجتناب کرتا ہے اور کبھی بھی ایسی صفات سے متصف نہیں ہوتا کیونکہ یہ صفتیں اس کے کمال حاصل کرنے میں رکاوٹ ہوں گی اور نتیجتاً ہلاکت اور بربادی کے سوا اسے کچھ حاصل نہ ہوگا۔کتنی ہی نعمتیں خود پسندی اور غرور کے نتیجے میں عذاب بن جاتی ہیں اور کتنی عزتیں ذلت میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور طاقت کمزوری کا روپ دھار لیتی ہے،لہٰذایہ خوفناک بیماری ہے اور انسان کے لیے وبال جان۔اسی لیے مسلمان ان دونوں صفات سے خود بھی بچتا ہے اور دوسروں کو بھی ان سے ڈراتا رہتا ہے۔بنابریں کتاب وسنت میں ان کی حرمت،
Flag Counter