Maktaba Wahhabi

531 - 692
انعام وغیرہ میں ہوتا ہے۔ 5: ایک ہی چیز میں متعدد ضامن ہو سکتے ہیں،جبکہ ضامن پر ضامن ہو(ضامن کا بھی کوئی ضامن بن جائے)تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ ٭ ضمانت کا تحریری نمونہ: بسم اللہ اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد،میرے پاس |اس ’’ضمان‘‘کے گواہ فلاں تاریخ کو آئے اور گواہی دی کہ یہ شخص فلاں کے ذمے اتنی مقدار کے واجبات کا ضامن ہے(اس موقع پر لکھنے یا لکھانے والا واضح کرے کہ قرض کی ادائیگی کا وقت آ گیا ہے یا قسطیں ہیں یا کہ مؤجل ہے)اور یہ ’’ضمان‘‘شرعی اصولوں کے مطابق ہے،ضامن نے اقرار کیا ہے کہ وہ مذکورہ واجبات کی ادائیگی پر قادر ہے اور ضمان کے عرفی و شرعی مفہوم سے واقف ہے،جبکہ’’جس کی ضمانت دی جارہی ہے اس‘‘نے بھی اس کی ’’ضمان‘‘کو تسلیم کیا ہے۔آج مؤرخہ ..کو یہ تحریر ہوئی۔ ٭ کفالت کی تعریف: ایک با اختیار شخص اپنے اوپر یہ لازم کر لے کہ اگر فلاں پر کسی حق کو ادا کرنا ثابت ہو گیا تو میں دوں گا یا وہ(با اختیار شخص)کسی کو عدالت میں حاضر کرنے کی ذمہ داری قبول کرے۔[1] ٭ کفالت کا حکم: مذکورہ’ ’کفالت‘‘شرعا جائز ہے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّىٰ تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلَّا أَن يُحَاطَ بِكُمْ﴾ ’’میں اسے تمھارے ساتھ ہرگز نہیں بھیجوں گا،الّا یہ کہ تم مجھ سے اللہ کی طرف سے پختہ عہد کرو کہ اسے ضرور میرے پاس واپس لاؤ گے،ا لّا یہ کہ تمھارا گھیراؤ کر لیا جائے۔‘‘[2] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’لَا کَفَالَۃَ فِي حَدٍّ‘ ’’حدوں میں کفالت نہیں ہے۔‘‘[3] اور فرمایا:’اَلزَّعِیمُ غَارِمٌ‘ ’’کفیل(نے جو حق اپنے ذمے لیا ہے وہ اسے)ادا کرے گا۔‘‘[4] ٭ یہ مطلب نہیں کہ بعینہ یہی الفاظ لکھے جائیں بلکہ بطور نمونہ یہ اظہار مقصود ہے کہ ضمانت نامہ میں کسی طرح فریقین،عقد اور گواہوں کا تذکرہ ہو جائے اور یہ تحریر قاضیِ محکمہ کی طرف سے ہو گی۔(مؤلف)
Flag Counter