Maktaba Wahhabi

406 - 692
زائد ہو جائیں تو ہر ایک سو میں ایک بکری یا ایک بھیڑ ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’فَإِذَا زَادَتْ فَفِي کُلِّ مِائَۃٍ شَاۃٌ‘’’جب(تین سو سے)زائد ہو جائیں تو ہر سو میں ایک(بھیڑ یا)بکری ہے۔‘‘ [1] تنبیہات: 1: جمہور فقہاء جانوروں کی زکاۃ میں یہ شرط قرار دیتے ہیں کہ وہ سال کا اکثر حصہ جنگل وغیرہ میں گھاس چرتے ہوں۔تاہم امام مالک رحمہ اللہ یہ شرط نہیں لگاتے،وہ بہرصورت زکاۃ کے قائل ہیں اور فقہائے مدینہ کا عمل بھی اسی پر ہے۔جمہور کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ((وَفِي سَائِمَۃِ الْغَنَمِ،إِذَا کَانَتْ أَرْبَعِینَ فَفِیھَا شَاۃٌ إِلٰی عِشْرِینَ وَمِائَۃٍ))’’اور جنگل میں چرنے والی بھیڑ بکریاں چالیس ہو جائیں تو ان میں ایک(جانور)ہے،ایک سو بیس تک۔‘‘ [2] جمہور نے بکریوں میں صراحت اور گائے اور اونٹ[3] میں اس پر قیاس کر کے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ سال کا اکثر حصہ باہر چرتے ہوں۔ان کے نزدیک اگر مالک انھیں گھر میں گھاس مہیا کرتا ہے تو اس میں مشقت ومحنت کی وجہ سے زکاۃ معاف ہو جاتی ہے۔ 2: جانوروں کے درمیانی نصاب میں زکاۃ نہیں ہے،مثلاً:جس کے پاس چالیس بکریاں ہیں وہ ایک دے گا اور ایک سو بیس تک درمیانی تعداد ہے تو بھی ایک ہی بکری ادا کرے گا،جب ایک سو بیس سے ایک بڑھ جائے گی تو پھر دو بکریاں اس پر واجب ہوں گی۔چالیس اور ایک سو بیس کی درمیانی تعداد کو ’’وقص‘‘ کہتے ہیں۔اسی طرح اونٹوں اور گائے کے ’’وقص‘‘ میں بھی زکاۃ نہیں ہے۔اس لیے کہ حدیث کا انداز یہ ہے:’إِذَا بَلَغَتْ کَذَا فَفِیھَا کَذَا‘’’جب اتنی تعداد ہو جائے تو اس میں اتنی زکاۃ ہے۔‘‘ [4] اس سے معلوم ہوا کہ درمیانی تعداد پرزکاۃ نہیں ہے۔ 3: بھیڑ اور بکریوں کوزکاۃ میں ایک جنس قرار دیا گیا ہے اور بھینس اور گائے کو ایک جنس،اسی طرح بختی(وسط ایشیا میں پایا جانے والا دو کہانوں والا)اور عربی اونٹ(زکاۃ کی مد میں)ایک ہی جنس شمار ہوتے ہیں۔اس لیے کہ حدیث میں وارد شدہ الفاظ:الغنم،البقر،الإبل ان دونوں اقسام کو شامل ہیں۔
Flag Counter