Maktaba Wahhabi

550 - 692
4: ’’عاریت‘‘ کے طور پر لی ہوئی چیز آگے کرایے پر نہیں دی جا سکتی ہاں،اگر’ ’عاریت‘‘ دینے والے کی طرف سے اجازت ہو تو اسے آگے عاریتًا دے سکتا ہے،ورنہ نہیں۔ 5: اگر ایک انسان نے شہتیر رکھنے کے لیے عاریتًا دیوار دے دی ہے تو جب تک دیوار گر نہیں جاتی،اس عاریت کو واپس نہیں لیا جا سکتا۔اسی طرح اگر کسی نے زمین کاشت کے لیے عاریتًا دی ہے تو کھیت کی کٹائی تک اسے واپس نہ لے،اس لیے کہ اس میں ایک مسلمان کا نقصان ہے جو کہ حرام ہے۔ 6: جو شخص ایک متعین مدت کے لیے کوئی چیز عاریتاً دیتا ہے تو مدت گزرنے کے بعد اس کا مطالبہ کرنا بہتر ہے،پہلے نہیں۔ ٭ عاریت کا تحریری نمونہ: ’’فلاں نے فلاں کو اپنی مقبوضہ اور مملوکہ چیز عاریتاً دی ہے۔یہ فلاں مکان یا باغ یا کپڑا وغیرہ ہے،فلاں مدت تک وہ اس میں رہائش رکھے گا یا اسے استعمال کرے گا۔یہ صحیح،جائز اور قابل واپسی ’’عاریت‘‘ ہے اور مندرجہ بالا طریق کے مطابق عاریتاً لینے والے نے اسے اپنے قبضہ میں لیا ہے اور دونوں نے اس کو شرعی طور پر تسلیم اور قبول کر لیا ہے۔ آج مؤرخہ... غصب کا بیان: ٭ غصب کی تعریف:دوسرے کے مال پر زبردستی اور ناحق قبضہ کر لینا،مثلاً:ایک شخص کا ایک مکان ہے،اس سے چھین کر اس میں رہائش اختیار کرنا یا کسی کا جانور ہے تو اس پر سواری کرنا۔ ٭ غصب کا حکم: غصب حرام ہے،اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ﴾’’ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ۔‘‘[1] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’فَإِنَّ دِمَائَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ‘ ’’خبردار!تمھارے خون اور تمھارے اموال تم پر حرام ہیں۔‘‘[2] اور فرمایا:’مَنِ اقْتَطَعَ شِبْرًا مِّنَ الْأَرْضِ ظُلْمًا طَوَّقَہُ اللّٰہُ إِیَّاہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ سَبْعِ أَرْضِینَ‘ ’’جو شخص کسی زمین میں سے ایک بالشت کے برابر ناجائز قبضہ کرتا ہے،قیامت کے دن اسے زمین کی سات تہوں کا طوق پہنایا جائے گا۔‘‘[3] نیز ارشاد گرامی ہے: لَا یَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ مُّسْلِمٍ عَنْ طِیبِ نَفْسِہِ‘’’کسی مسلمان کا مال اس کی خوشی کے بغیر حلال نہیں ہے۔‘‘[4]
Flag Counter