Maktaba Wahhabi

656 - 692
((نَھَی النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَنِ النَّذْرِ،وَقَالَ إِنَّہُ لَا یَرُدُّ شَیْئًا،وَلٰکِنَّہُ یُسْتَخْرَجُ بِہِ مِنَ الْبَخِیلِ)) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’نذر‘‘سے منع کیا ہے اور فرمایا:’’یہ کسی چیز کو رد نہیں کرتی،البتہ اس کے ذریعہ بخیل سے اس کا مال نکالا جاتا ہے۔‘‘[1] اگر ’’نذر‘‘ میں غیر اللہ کی رضا بھی مطلوب ہے تو وہ حرام ہے جیسا کہ اولیائے کرام کی قبروں کے لیے نذر یا صالحین کی ارواح کے لیے نذرونیاز،مثلاً:یوں کہے کہ میرے فلاں سردار!اگر اللہ نے میرے مریض کو شفا دے دی تو میں تیری قبر پر جانور ذبح کروں گا یا خیرات کروں گا،اس لیے کہ یہ غیر اللہ کی عبادت ہے اور شرک ہے،جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ارشاد ربانی ہے:﴿وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا﴾ ’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ۔‘‘[2] ٭ نذر کی اقسام: 1: نذر مطلق:وہ یہ کہ اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے مسلمان کسی نیکی کا مطلقًا التزام کرے،مثلاً:کہے کہ میں اللہ کے لیے تین روزے رکھوں گا یا دس مسکینوں کو کھانا کھلاؤں گا۔اس نذر کا حکم یہ ہے کہ اسے پورا کیا جائے،اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم ہے:﴿وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللّٰهِ إِذَا عَاهَدتُّمْ﴾ ’’اور اللہ سے جب عہد کرو تو اسے پورا کرو۔‘‘[3] اور فرمایا:﴿وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ﴾’’اور چاہیے کہ وہ اپنی نذریں پوری کریں۔‘‘[4] 2: نذر مطلق غیر معین:مثلاً:مسلمان یہ کہے کہ اللہ کے لیے میرے اوپر نذر ہے اور یہ متعین نہ کرے کہ کس چیز کی نذر ہے۔اس کا حکم یہ ہے کہ اسے’ ’کفارئہ یمین‘‘کی صورت میں پورا کیا جائے،اس لیے کہ آپ کا فرمان ہے: ((کَفَّارَۃُ النَّذْرِ کَفَّارَۃُ الْیَمِینِ))’’نذر کا کفارہ(جب اسے متعین نہ کرے)قسم کے کفارہ کی طرح ہے۔‘‘[5] ایک رائے یہ ہے کہ عبادات میں جو کم سے کم نذر ہو سکتی ہے،اس کی ادائیگی کی جائے،مثلاً:دو رکعت نماز یا ایک دن کا روزہ۔ 3: اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فعل پر مقید نذر:مثلاً:یہ کہے کہ اگر اللہ نے میرے مریض کو شفا دی یا فلاں غائب کو واپس کر دیا تو اتنے مساکین کو کھانا کھلاؤں گا یا اتنے دن روزے رکھوں گا۔اگرچہ یہ انداز نذر ناپسندیدہ ہے مگر اسے پورا کرنا لازم ہے،یعنی جب اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری کرے تو اس پر وہ عبادت لازم ہو جاتی ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter