Maktaba Wahhabi

529 - 692
حوالہ کا بیان: ٭ حوالہ کی تعریف: ایک شخص کے ذمے سے قرض تبدیل کر کے دوسرے کے ذمے کر دینا،مثلاً:ایک شخص نے قرض دینا ہے اور اسی نے کسی اور سے قرض لینا بھی ہے تو قرض خواہ قرض کا مطالبہ کرتا ہے تو مقروض کہتا ہے:میں نے فلاں سے قرض لینا ہے تو اس سے وصول کر لے،اگر قرض خواہ تسلیم کر لے تو مقروض بریٔ الذمہ ہو جائے گا۔ ٭ حوالہ کا حکم: ’’حوالہ‘‘جائز ہے،البتہ اگر مقروض،قرض خواہ کو کسی مالدار کا حوالہ دے رہا ہے تو قرض خواہ پر یہ حوالہ قبول کرنا لازم ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ،فَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُکُمْ عَلٰی مَلِيٍّ فَلْیَتْبَعْ)) ’’غنی کا قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی(کے قرض)کو غنی کے حوالے کیا جائے تو وہ اسے قبول کر لے۔‘‘[1] اور فرمایا:’مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ،وَإِذَا أُحِلْتَ عَلٰی مَلِيٍّ فَاتْبَعْہُ‘ ’’غنی کی قرض کی ادا میں تاخیر ظلم ہے اور جب تو غنی کے حوالہ کیا جائے تو اسے قبول کر۔‘‘[2] ٭ حوالہ کی شرائط: 1: جس کے ذمے قرض حوالہ کیا جا رہا ہے وہ قرض کو تسلیم کرتا ہو اور اس کے ذمہ قرض یقینا ثابت شدہ ہو۔ 2: دونوں قرضے جنس،تعداد،مقدار،صفت اور ادائیگی کی میعاد میں برابر ہوں۔ 3: حوالہ کرنے والا اور جس کے حوالے کیا جا رہا ہے،دونوں اس پر راضی ہوں،اس لیے کہ حوالہ کرنے والے نے اگرچہ قرض دینا ہے مگر اس پر یہ لازم نہیں کہ بذریعہ حوالہ ہی ادا کرے،اسی طرح جس کے حوالے کیا جا رہا ہے،وہ بھی پابند نہیں ہے کہ اسے ضروری قبول کرے۔’’عقد حوالہ‘‘مسلمانوں میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ ٭ حوالہ کے احکام: 1: قرض جس کے حوالہ کیا جا رہا ہے،وہ ادائیگی کی قدرت رکھتا ہو،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’فَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُکُمْ عَلٰی مَلِيٍّ فَلْیَتْبَعْ‘ ’’جب تم میں سے کسی(کے قرض)کو غنی کے حوالہ کیا جائے تو وہ ‘‘ قبول کر لے۔‘‘[3]
Flag Counter