Maktaba Wahhabi

525 - 692
٭ اجارہ کا حکم: یہ جائز ہے،اس لیے کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:﴿لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا﴾’’اگر تو چاہتا تو اس کام پر مزدوری لے لیتا۔‘‘[1] اور فرمایا:﴿إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ﴾ ’’بلاشبہ بہترین شخص،جسے آپ اجرت پر رکھیں،وہی ہو سکتا ہے جو طاقتور اور امین ہو۔‘‘[2] مزید ارشاد ربانی ہے:﴿عَلَىٰ أَن تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ﴾’’اس شرط پر کہ تو میرے پاس آٹھ سال مزدور رہے گا۔‘‘[3] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی:ثَلَاثَۃٌ أَنَا خَصْمُھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ:رَجُلٌ أَعْطٰی بِي ثُمَّ غَدَرَ،وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّ افَأَکَلَ ثَمَنَہُ،وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِیرًا فَاسْتَوْفٰی مِنْہُ وَلَمْ یُعْطِہِ أَجْرَہُ‘ ’’اللہ عزوجل فرماتا ہے:’’میں قیامت کے دن تین اشخاص کے خلاف مدعی بنوں گا‘‘ایک شخص جو میرے نام سے ’’عہد‘‘کرتا ہے اور پھر دھوکا دیتا ہے،ایک وہ شخص جو آزاد کو بیچ کر اس کے پیسے کھا جاتا ہے اور ایک وہ شخص جو مزدور سے پوری مزدوری کرائے مگر پھراسے اجرت نہ دے۔‘‘[4] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کے موقع پر بنو دِیل کے ایک ماہر شخص کو مزدور بنایا تھا جو انھیں مدینہ منورہ کے راستے بتاتا تھا۔[5] ٭ اجارہ کی شرائط: 1: منافع(کرایہ دینے والا شخص جو نفع اٹھائے گا وہ)متعین و معروف ہونا چاہیے،مثلاً:مکان میں رہائش اختیار کرنا ہے،کپڑا سینا ہے وغیرہ،اس لیے کہ یہ ’’بیع‘‘کی طرح ہے اور بیع میں ’’مبیع‘‘ کا متعین و معروف ہونا ضروری ہے۔ 2: نفع کا جائز ہونا بھی ضروری ہے،یہی و جہ ہے کہ لونڈی زنا کے لیے اجرت پر دینا یا عورت کو گانے یا نوحہ کے لیے اجرت پر رکھنا،اسی طرح کفار اوریہود و نصارٰی کے ’’معبد‘‘(عبادت گاہ)کی تعمیر کے لیے زمین کرایے پر دینا یا شراب خانے کے لیے دکان کرایہ پر دینا سب ناجائز ہیں۔ 3: اجرت متعین ہو،اس لیے کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم نَھٰی عَنِ اسْتِئْجَارِ الْأَجِیرِ حَتّٰی یُبَیَّنَ لَہُ أَجْرُہُ)) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدور کی مزدوری متعین کیے بغیر مزدور رکھنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘[6]
Flag Counter