Maktaba Wahhabi

564 - 692
کرتا ہوں تو اس میں بیٹے اور بیٹیاں دونوں داخل ہیں،البتہ اس لفظ میں بیٹوں کی اولاد بھی داخل ہو گی،جبکہ بیٹیوں کی اولاد نہیں اور اگر یوں کہے کہ میں اپنی اولاد اور اولاد کی اولاد کے لیے وقف کرتا ہوں تو یہ بیٹوں کی اولاد اور بیٹیوں کی اولاد سب کو شامل ہے اور اگر یوں کہے کہ میں اپنے بیٹوں کے لیے وقف کرتا ہوں تو اس سے صرف لڑکے مراد ہوں گے،لڑکیاں نہیں۔ہاں،اگر’’بیٹیوں ‘‘ کا لفظ بولتا ہے تو صرف بیٹیوں کے لیے وقف ہو گا اور یہ اس صورت میں ہے جب الفاظ کے معانی میں فرق سمجھنا ہو ورنہ الفاظ کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ 2: وقف کرنے والے نے اگر کوئی شرط عائد کی ہے تو اس پر عمل کیا جائے گا،مثلاً:کہتا ہے کہ میں عالم،محدث یا فقیہ کے لیے وقف کرتا ہوں تو یہ کسی اور ماہر علم،مثلاً:نحوی یا عروضی وغیرہ کے لیے وقف نہیں ہو گا۔اگر یہ کہتا ہے کہ میں یہ چیز اپنی اولاد کے لیے پھر ان کی اولاد کے لیے اور پھر ان کی اولاد کے لیے وقف کرتا ہوں۔یا کہتا ہے کہ پہلے طبقہ والے(اولاد)دوسرے طبقہ(اولاد کی اولاد)کے لیے رکاوٹ بن جائیں گے تو اس کے مطابق ہی عمل ہو گا۔اس صورت میں دوسرے طبقہ کو اس وقت تک حق نہیں ملے گا،جب تک پہلے طبقہ کے افراد موجود ہیں۔لہٰذا اگر وقف تین بھائیوں کے لیے ہے اور ان میں سے ایک بھائی فوت ہو جائے اور وہ اولاد چھوڑ جائے تو وقف اس کی اولاد کو منتقل نہیں ہو گا بلکہ اس کے دونوں بھائی اسے حاصل کریں گے،جب اس نے،اوپر والے طبقہ کو حاجب(رکاوٹ)قرار دیا ہو۔ 3: محض وقف کا اعلان کرنے سے یا جائیداد ’’موقوف علیہ‘‘کے سپرد کرنے سے وقف لازم ہو جاتا ہے،اس کے بعد وقف کرنے والا اسے فسخ نہیں کر سکتا اور نہ ہی فروخت یا ہبہ کر سکتا ہے۔ 4: اگر ویران ہونے کی وجہ سے ’’وقف‘‘(کردہ زمین)سے فائدہ حاصل کرنا ممکن نہیں رہا تو بعض علماء اس کے فروخت کرنے اور قیمت اسی طرح کے کام میں لگانے کا فتویٰ دیتے ہیں،اگر کچھ بچ رہے تو مسجد کے لیے صرف کیا جائے یا فقراء و مساکین پر خیرات کر دی جائے۔ ٭ وقف کا تحریری نمونہ: بسم اللہ اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد:فلاں اقرار کرتا ہے کہ اس نے درج ذیل چیز کو وقف اور حبس کر دیا ہے جو اب تک اس کے قبضے،ملکیت اور تصرف میں تھی اور فلاں دستاویز کی رو سے اس کے لیے اس کا ملکیت ہونا ثابت تھا یا جو اسے اپنے والد کی طرف سے وراثت میں ملی تھی اور جس کا حدود اربعہ یہ ہے..۔ یہ وقف شرعی اصولوں کے مطابق ہے اور صراحتاً اسے ’’وقف‘‘ کر رہا ہے،اسے کبھی فروخت،رہن اور ہبہ نہیں کیا جا سکے گا اور نہ ہی وراثت میں تقسیم ہو گا۔اگر اس سے فائدہ حاصل کرنا معدوم ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے جذبے سے اس کی مثل کے ساتھ ہی اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے،نیز زمانے کی طوالت بھی اس وقف کو ختم نہیں کر سکے گی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید پختگی آئے گی اور مذکورہ مقصدیت میں یہ اور نمایاں ہو جائے گا۔
Flag Counter