Maktaba Wahhabi

480 - 692
3: پوری قوت صرف کر کے ممکنہ حد تک سامان جنگ اور ہتھیاروں سے لیس ایک لشکر جرار تیار رکھنا،اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ﴾’’اور جہاں تک ہو سکے ان کے لیے قوت تیار رکھو۔‘‘[1] 4: ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک زندہ ہے تو ان کی رضا حاصل کرنی چاہیے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مرد آیا اور جہاد کی اجازت طلب کی تو آپ نے پوچھا:’’کیا تیرے والدین زندہ ہیں۔‘‘اس نے کہا:’’ہاں،فرمایا:’’ان کی خدمت کا جہاد ادا کر۔‘‘[2] ا لّا یہ کہ دشمن اس کی اپنی مسلم آبادی پر حملہ آور ہو جائے یا امام کسی کو متعین کر کے جہاد کا حکم صادر کر دے تو ماں باپ سے اجازت لینا ساقط ہو جاتا ہے۔ 5: امام کی فرمانبرداری اور اطاعت،اس لیے کہ جو امام کی نافرمانی میں مرا وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((مَنْ کَرِہَ مِنْ أَمِیرِہِ شَیْئًا فَلْیَصْبِرْ عَلَیْہِ،فَإِنَّہُ لَیْسَ أَحَدٌ مِّنَ النَّاسِ یَخْرُجُ مِنَ السُّلْطَانِ شِبْرًا فَمَاتَ عَلَیْہِ إِلَّا مَاتَ مِیتَۃً جَاھِلِیَّۃً)) ’’جو اپنے امیر کی کوئی چیز ناپسند کرتا ہے تو اس پر صبر کرے،اس لیے کہ جو کوئی اپنے امیر کی اطاعت سے ایک بالشت خارج ہوا اور مر گیاتو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘[3] لڑائی کے لیے کن باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے: مجاہد پر لازم ہے کہ معرکہ میں داخل ہوتے وقت درج ذیل امور کو پیش نظر رکھے: 1: جنگ میں ثابت قدم رہنا اور اپنی جان کی بازی لگا دینا،اس لیے کہ میدان جنگ سے فرار اور شکست کو اللہ عزوجل نے حرام قرار دیا ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ﴾’’اے ایمان والو!جب تم کافروں کو جنگ میں ملو تو انھیں پیٹھ دے کر نہ بھاگو۔‘‘[4] تاہم یہ اس صورت میں ہے کہ جب کفار دوگنے سے زیادہ نہ ہوں،اگر زائد ہوں،مثلًا:ایک مسلمان کے مقابلے میں
Flag Counter