Maktaba Wahhabi

673 - 692
’’اور ایک مومن گردن کا آزاد کرنا ہے۔جو نہیں پاتا وہ لگاتار دو ماہ کے روزے رکھے۔یہ اللہ کے حضور توبہ کے طور پر ہے اور اللہ جاننے والا،حکمت والا ہے۔‘‘[1] اعضائے جسم پر جنایت ٭ جنایت اعضاء کی تعریف: کوئی انسان دوسرے پر ظلم و زیادتی کرتا ہے اور اس کی آنکھ نکال دیتا ہے،ٹانگ توڑ دیتا ہے یا ہاتھ کاٹ دیتا ہے تو یہ ’’اعضائے جسم‘‘ پر جنایت ہے۔ ٭ جنایت اعضاء کا حکم: قصور وار نے اگر جان بوجھ کر اور ارادے سے یہ کام کیا ہے اور وہ مظلوم اس کا بیٹا یا بیٹی نہیں اور اسلام اور آزادی میں دونوں برابر ہیں تو ظالم سے قصاص لیا جائے گا۔اس طرح کہ جو عضو اس نے توڑا یا کاٹا ہے۔جانی(مجرم)کا وہی عضو توڑا یا کاٹا جائے گا اور اگر اس نے زخم لگایا ہے تو اسے زخمی کیا جائے گا۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ﴾’’زخموں میں بھی قصاص ہے۔‘‘[2] اِلاّ یہ کہ’ ’صاحب حق‘‘(قصاص لینے کے بجائے)دیت قبول کر لے یا معاف کر دے۔ ٭ اعضاء پر جنایت کا قصاص لینے کی شرائط: اعضاء کا قصاص لینے کی درج ذیل شرطیں ہیں: 1 قصاص لینے میں حد سے تجاوز کا خطرہ نہ ہو،اگر یہ خطرہ موجود ہے تو قصاص نہیں ہے۔ 2 قصاص لینا ممکن ہو اگر ممکن نہیں تو دیت لی جائے۔ 3 جس عضو کو قصاص میں کاٹنا چاہتے ہیں وہ نام اور محل(جگہ)میں ضائع یا بیکار ہونے والے عضو کے مماثل ہونا چاہیے،لہٰذا بائیں عضو کے بدلے میں دایاں عضو نہیں کاٹا جائے گا اور نہ ہی پاؤں کے بدلے میں ہاتھ اور اگر کسی کی چھ انگلیاں ہوں تو زائد انگلی کے بدلہ میں اصلی انگلی نہیں کاٹی جائے گی دیت دی جائے گی۔واللہ اعلم۔ 4 دونوں عضو صحت اور کمال میں برابر ہونے چاہئیں،لہٰذا تندرست ہاتھ کے بدلے میں شل ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اور نہ تندرست آنکھ کے بدلے کانی آنکھ نکالی جائے گی۔ 5 اگر زخم سر یا چہرے میں لگا ہے،جسے’ ’ شجہ‘‘کہتے ہیں تو اس میں قصاص نہیں ہے۔اسی طرح ٹوٹی ہڈی اور معدہ تک پہنچنے والے زخم میں بھی قصاص نہیں ہے مگر ان میں دیت واجب ہے۔ تنبیہ:اگر ایک شخص کو قتل کرنے یا اس کے جسم کے کسی عضو کو ناکارہ کرنے میں ایک جماعت شریک ہے تو سب سے قصاص لیا جائے گا،اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سات آدمیوں نے مل کر ایک شخص کو قتل کر دیا تھا تو انھوں نے سب کو قصاصًا قتل کر دیا اور فرمایا:((لَوْ تَمَالَأَ عَلَیْہِ أَھْلُ صَنْعَائَ لَقَتَلْتُھُمْ بِہِ جَمِیعًا))
Flag Counter