Maktaba Wahhabi

595 - 692
ہوگئی)عدت کے بعد پھر اسی خاوند سے نکاح کر لیا اور اب پھر اس سے طلاق لینے کے بعد عدت میں ہے لیکن جو عورت سرے سے اس کی بیوی ہی نہیں ہے یا اس پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں،اس کو طلاق دینا لغو ہے،اس لیے کہ وہ ’’محل طلاق‘‘ میں نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((لَا نَذْرَ لِابْنِ آدَمَ فِیمَا لَا یَمْلِکُ،وَلَا عِتْقَ لَہُ فِیمَا لَا یَمْلِکُ،وَلَا طَلَاقَ لَہُ فِیمَا لَا یَمْلِکُ)) ’’جس چیز کا انسان مالک نہیں،اس میں سے نذرماننا،اس کو آزاد کرنا اور طلاق دینا(معتبر)نہیں ہے۔‘‘٭[1] 3: تیسرا رکن طلاق کے صریح الفاظ ہیں یا کنائی الفاظ جب ان سے طلاق کا ارادہ ہو۔بنا بریں محض دل کے ارادے سے ’’الفاظ طلاق‘‘ زبان سے کہے بغیر طلاق واقع نہیں ہو گی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِي عَمَّا حَدَّثَتْ بِہِ أَنْفُسَھَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْتَتَکَلَّمْ بِہِ)) ’’ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے دل میں پیدا ہونے والے خیالات کو معاف کر دیا ہے جب تک کہ ان پر عمل یا کلام نہ کی جائے۔‘‘[2] ٭ طلاق کی اقسام: 1:طلاق سنی: اس ’’طہر‘‘ میں طلاق دینا جس میں جماع نہیں ہوا،طلاق سنی کہلاتا ہے،لہذا جب مسلمان اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے اور اسے یقین ہو کہ طلاق دیے بغیر نقصان اور ضرر دور نہیں ہو سکتا تو وہ انتظار کرے اور حیض کے بعد ’’طہر‘‘میں ایک طلاق دے،اگر اس ’’طہر‘‘ میں جماع نہیں کر چکا،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ﴾ ’’اے نبی!(لوگوں سے کہہ دو کہ)جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو۔‘‘[3] 2:طلاق بدعی: حیض یا نفاس یا اس طہر میں طلاق دینا جس میں وہ جماع کر چکا ہے یا ایک ہی بار یہ لفظ کہہ دینا کہ ’’تجھے تین طلاقیں ہیں ‘‘یا یوں کہے کہ’’تجھے طلاق ہے،طلاق ہے،طلاق ہے۔‘‘یہ بدعی اور ناجائز اندازِ طلاق کی صورتیں ٭ سنن أبي داود،حدیث:2193 میں ’لَا طَلَاقَ وَلَا عِتَاقَ فِي إِغْلَاقٍ‘ یعنی اکراہ(زبردستی)کی صورت میں طلاق دینا اور غلام آزاد کرنا معتبر نہیں ہے۔(یہ حدیث صحیح ہے۔زبیر علی زئی)موطأ امام مالک(حدیث:1277)میں ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں مار کٹائی کا ڈر دے کر ایک شخص سے اس کی منکوحہ کی طلاق حاصل کر لی گئی۔عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم نے فیصلہ دیا کہ زبردستی کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہوئی ہے اور عورت کی اسی شخص کے ساتھ شادی کردی گئی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس کے ولیمے میں شریک ہوئے۔(الاثری)
Flag Counter