Maktaba Wahhabi

111 - 692
روکنا اس وقت مزید فرض اور ضروری ہوجاتا ہے جب نیکی معدوم ہو رہی ہو اور برائی پھیل رہی ہو،بالخصوص ان لوگوں پر جو امرونہی کی اپنے ہاتھ یا زبان سے طاقت رکھتے ہوں۔[1] درحقیقت ایمان باللہ کے بعد دینی ذمہ داریوں میں یہ سب سے بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکو اپنی کتاب عزیز میں ایمان کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ارشادِ باری ہے:﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ﴾ ’’جتنی امتیں لوگوں میں پیدا ہوئی ہیں تم سب سے بہتر ہو کہ اچھائی کا حکم کرتے،برائی سے منع کرتے اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘[2] اس عقیدے کی بنیاد درج ذیل نقلی اور عقلی دلائل ہیں: کتاب و سنت سے دلائل: 1: اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے: ﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ ’’اور تم میں ایک ایسی جماعت(ضرور)رہے جو اچھائی کی دعوت دے،نیکی کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘[3] 2: اللہ جل جلالہ نے ہمیں اپنے نیک بندوں کے بارے میں خبر دی ہے کہ وہ اچھے کاموں کا حکم دیتے اور برے کاموں سے منع کرتے ہیں۔ارشادِ ربانی ہے:﴿الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ﴾ ’’یہ(ایسے)لوگ ہیں کہ اگر ہم انھیں زمین میں اقتدار دیں تو نماز قائم کریں گے،زکاۃ دیں گے،اچھی بات کا حکم کریں گے اور برائی سے منع کریں گے۔‘‘[4] نیز فرمایا: ﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ﴾ ’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں(دینی لحاظ سے)ایک دوسرے کے(معاون اور)دوست ہیں،اچھائی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں،نماز قائم کرتے ہیں،زکاۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کی اطاعت کرتے ہیں۔‘‘[5] اللہ کے ولی حضرت لقمان رحمہ اللہ نے اپنے فرزند کو جو وصیتیں فرمائیں،ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
Flag Counter