Maktaba Wahhabi

223 - 692
12: اپنے بھائی کو نیا لباس پہنے دیکھے تو یہ دعا دے: ’أَبْلِ وَأَخْلِقْ‘ ’’ تو اسے استعمال کر کے خوب بوسیدہ اور پرانا کر۔‘‘ کیونکہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ام خالد رضی اللہ عنہا ‘‘کو،جب اس نے نیا لباس پہنا تھا،’أَبْلِي وَأَخْلِقِي‘ ’’تو اس کے بوسیدہ ہونے اور پھٹنے تک اسے استعمال کرتی رہے۔‘‘کی دعا دی تھی۔ لہٰذا مذکر کے لیے’أَبْلِ وَأَخْلِقْ‘ اور مؤنث کے لیے ’أَبْلِي وَأَخْلِقِي‘ کے الفاظ کے ساتھ دعادی جائے گی۔[1] باب:13 خصائل فطرت کے آداب [2] مسلمان کا شیوہ یہ ہے کہ وہ کتاب وسنت کی روشنی میں زندگی بسر کرتا ہے اور ہمہ وقت تمام کاموں میں ان کے مطابق چلنے کی کوشش و کاوش میں لگا رہتا ہے۔اس لیے کہ ربِ کائنات کا حکم ہے:﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ﴾ ’’اورکسی مومن مرد اور مومن عورت کو اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کے فیصلے کے بعد اپنی بات میں کوئی اختیار نہیں رہتا۔‘‘ [3] ارشادِ ربانی ہے:﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا﴾ ’’جو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)تمھیں دیتے ہیں وہ لے لو اور جس سے منع کرتے ہیں اس سے رک جاؤ۔‘‘ [4] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُونَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِّمَا جِئْتُ بِہِ)) ’’تم میں کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہو جائے۔‘‘[5] نیز فرمایا:’مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَّیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَھُوَ رَدٌّ‘’’جو شخص ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘ [6] لہٰذا خصائل فطرت کو اپنانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے جس کی تفصیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِ گرامی میں ہے:
Flag Counter