Maktaba Wahhabi

708 - 692
((رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَۃٍ:عَنِ النَّائِمِ حَتّٰی یَسْتَیْقِظَ،وَعَنِ الصَّغِیرِ حَتّٰی یَکْبُرَ وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتّٰی یَعْقِلَ أَوْیُفِیقَ)) ’’تین اشخاص مرفوع القلم ہیں:سویا ہوا بیدار ہونے تک،بچہ جوان ہونے تک،اور دیوانہ ہوش آنے تک۔‘‘[1] نیز ارشاد فرمایا:((وُضِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْیَانُ وَمَا اسْتُکْرِھُوا عَلَیْہِ))’’میری امت سے خطا،نسیان اور جس پرانھیں مجبور کیا جائے،معاف کر دیا گیا ہے۔‘‘[2] ٭ اقرار کا حکم: اقرار کرنے سے اقرار کردہ چیز اس کے ذمے ثابت ہو جاتی ہے جبکہ وہ عاقل،بالغ اور خود مختار ہو،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْھَا))’’اگر وہ عورت اعتراف کر لے تو اسے سنگسار کر دینا۔‘‘[3] اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اعتراف کے نتیجے میں اس پر حد کا فیصلہ لاگو کرنے کا حکم دیا ہے۔ مفلس یامحجور علیہ(جسے مالی معاملات میں تصرف سے روک دیا گیا ہو)کا مالی معاملات میں اعتراف و اقرار لازم نہیں ہے۔٭ اس لیے کہ ہو سکتا ہے مفلس قرض خواہوں سے حسد کی وجہ سے ان پر کوئی غلط الزام لگا دے،نیز اس لیے بھی کہ اگر’ ’محجور علیہ‘‘ کا اقرار نافذ ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس پر کوئی پابندی عائد ہی نہیں کی گئی،البتہ ان دونوں کا اقرار ان کے ذمے رہے گا،جب بھی رکاوٹ دور ہو گی،ان کا اعتراف لاگو ہو جائے گا۔ وارث کے حق میں ’ ’قریب الموت‘‘ کا اقرار صحیح نہیں ہے،اِ لَّا یہ کہ وہ اپنے اقرار پر ثبوت پیش کرے،اس لیے کہ اس وقت اس پر کسی وارث کو زیادہ دینے کا الزام عائد ہو سکتا ہے،مثلاً:بیمار کہتا ہے کہ میرے فلاں بیٹے کا میرے پاس اتنا سرمایہ ہے،یہ ناقابل قبول ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((لَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ))’’وارث کے لیے وصیت نہیں ہے۔‘‘[4] اسی طرح مریض کا وارث کے حق میں یہ کہنا کہ فلاں بیٹے کو میں نے اتنا دینا ہے۔یہ درحقیقت وصیت کے معنی میں ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وارث کے لیے وصیت ممنوع قرار دی ہے۔ہاں،ورثاء اگر اس کی وصیت نافذ کریں تو ٭ یعنی اگر وہ اعتراف کرتے ہیں تو فوری طور پر اس پر عمل کروانا ضروری نہیں ہے۔(ص،ی)
Flag Counter