Maktaba Wahhabi

374 - 692
مشغول ہونا ہے،یہاں تک کہ یہ کیفیت دور ہو جائے۔ نماز استسقا کا بیان: 1 نماز استسقا کا حکم: یہ نماز بھی سنت مؤکدہ ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر عمل رہا ہے آپ لوگوں میں اعلان کر کے کھلے میدان میں اس نماز کے لیے نکلے تھے۔عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بارش کی دعا کے لیے نکلے،قبلے کی طرف منہ کیا اور کندھے پر چادر کی تحویل کی(چادر کو الٹایا)پھر دو رکعت نماز پڑھی اور اس میں اونچی آواز سے قراء ت کی۔[1] 2 استسقا کا معنی: قحط سالی ہو جائے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے نماز،دعا اور استغفار کے ذریعے سے بارش طلب کرنا استسقا ہے۔ 3 نماز استسقا کا وقت: اس نماز کا وقت نماز عید کے مطابق ہے۔اس لیے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ((فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم حِینَ بَدَأَ حَاجِبُ الشَّمْسِ))’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز استسقا کے لیے اس وقت نکلے جب سورج کا کنارہ ظاہر ہوا۔‘‘[2] البتہ مکروہ اوقات جن میں نماز پڑھنا ممنوع ہے،ان کے علاوہ ہر وقت بارش کے لیے نماز پڑھنا جائز ہے۔ 4 نماز استسقا سے قبل چند مستحب امور؟: وقت مقررہ سے پہلے امام اس نماز کا اعلان کر دے اور لوگوں کو تلقین کرے کہ گناہوں سے توبہ کریں،ظلم کے کام چھوڑ دیں،روزے اور خیراتوں کا اہتمام کریں اور ایک دوسرے کے خلاف بغض وعداوت ترک کر دیں،اس لیے کہ قحط سالی کا باعث یہی نافرمانیاں ہوتی ہیں۔جبکہ اللہ کی فرماں برداری موجب خیروبرکات ہے۔٭ 5 نماز استسقا کا طریقہ: بارش طلب کرنے کے لیے نماز کا طریقہ یہ ہے کہ لوگ کھلے میدان میں پہنچ جائیں،امام انھیں دو رکعت پڑھائے جس طرح عام دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں یا بعض کے نزدیک پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور ٭ قحط سالی اور بارش کی قلت کے اسباب گناہ اور نافرمانیوں کی کثرت ہے،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان میں ہے کہ ’’جو قوم اجناس کے ماپنے اور موزون چیزوں کے وزن میں کمی کرتی ہے،انھیں قحط سالی،قلت خوراک اور بادشاہی جوروستم میں مبتلا کر دیا جاتا ہے اور جو اپنے اموال کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ان سے بارش روک دی جاتی ہے۔اگر جانور نہ ہوتے تو ان کے لیے بارش نہ ہوتی۔‘‘ [حسن] سنن ابن ماجہ،الفتن،باب العقوبات،حدیث:4019۔
Flag Counter