Maktaba Wahhabi

209 - 692
کے طریق کی پیروی کا ارادہ کرے اور اس میں یہ نیت و جذبہ بھی کارفرما ہو کہ ایماندار بھائیوں میں سرور اور خوشی پیدا کرے گا۔ 4: کسی ایسے شخص کو دعوت نہ دے جس کا شریک ہونا مشکل ہو یا(خیال ہو کہ)وہ کسی شریک ساتھی کی و جہ سے رنجیدہ ہو گا کیونکہ مومن کو ایذا دینا حرام ہے۔ قبولِ دعوت کے آداب: 1: کھانے کی دعوت قبول کر لینی چاہیے،معقول عذر کے بغیر اس سے پیچھے رہنا مناسب نہیں ہے،مثلاً:دعوت میں شریک ہونے سے دین یا بدن میں نقصان و ضرر کا اندیشہ ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’مَنْ دُعِيَ إِلٰی عُرْسٍ أَوْنَحْوِہِ فَلْیُجِبْ‘ ’’جسے شادی وغیرہ(کی دعوت)کے لیے بلایا جائے،وہ اسے قبول کرے۔‘‘ [1] نیز فرمایا:’لَوْ دُعِیتُ إِلٰی ذِرَاعٍ أَوْکُرَاعٍ لَّأَجَبْتُ،وَلَو أُھْدِيَ إِلَيَّ ذِرَاعٌ أَوْ کُرَاعٌ لَّقَبِلْتُ‘ ’’مجھے اگر بکری کے بازو یا پائے کے لیے بلایا جائے تو میں ضرور دعوت قبول کروں گا اور اگر مجھے بازو یا پائے کا تحفہ دیا جائے تو میں اسے منظور کروں گا۔‘‘ [2] 2: قبولِ دعوت میں امیر وغریب کا فرق نہ کرے،غریب کی دعوت قبول نہ کرنے سے اس کی دل شکنی ہو گی اور اس میں تکبر کا پہلو بھی ہے،اور تکبر کرنے پر اللہ ناراض ہوتا ہے۔ غرباء کی دعوت قبول کرنے کے بارے میں مروی ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما ایک دن مساکین کے پاس سے گزرے جو روٹی کے ٹکڑے زمین پر رکھ کر کھا رہے تھے۔انھوں نے حسن رضی اللہ عنہ کو دعوت دی۔اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے بیٹے!ہمارے ساتھ صبح کے کھانے میں شریک ہو جائیں۔ حسن رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:’نَعَمْ،إِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِ‘ ’’ہاں،بے شک اللہ تعالیٰ بڑائی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔‘‘[3] خچر سے اترے اوران کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔ 3: قبولِ دعوت میں دور اور قرابت والے کا فرق نہ کرے بلکہ جو پہلے آ جائے اس کی دعوت قبول کر لے اور دوسرے سے معذرت کر لے۔ 4: نفلی روزہ کی وجہ سے انکار نہ کرے اگر صاحب دعوت اسے کھانا کھلانے میں خوشی محسوس کرتا ہے تو روزہ افطار کر
Flag Counter